ایشین گیمز2018ء، پاکستانی ٹیموں کی تیاری؟کس کھیل میں میڈلز آنے کی توقع

تحریر،،ڈاکٹرزاہد اعوان

اٹھارہویں ایشین گیمز 18اگست تا 2ستمبر 2018ء انڈونیشیا کے دو شہروں جکارتہ اور پلمبرنگ میں منعقد ہورہی ہیں جن کے لئے پاکستانی ٹیمیں بھی تیاریوں میں مصروف ہیں لیکن دو چار کھیلوں کے سوا دیگر قومی ٹیموں سے میڈلز کی توقع رکھنا بیوقوفی ہوگی کیونکہ سیاست کے باعث ہماری کئی فیڈریشنوں نے ایشین گیمز کے لئے لگائے گئے کوچنگ وٹریننگ کیمپوں میں سیاسی بنیادوں پر ایسے من پسند کوچز اوردیگر آفیشلز لگا رکھے ہیں جو خود کھیل کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں اورفیڈریشنوں نے انہیں صرف مالی فائدہ پہنچانے اور غیرملکی دورہ کروانے کیلئے قومی ہیروز پر مسلط کررکھاہے جو نہ صرف ہمارے انٹرنیشنل کھلاڑیوں بلکہ وطنِ عزیز پاکستان کے ساتھ بھی ناانصافی ہے۔ اس موضوع پرتفصیلی بات آگے کرینگے فی الحال ایشین گیمز کی بات کرتے ہیں۔ اٹھارہویں ایشین گیمز کی میزبانی انڈونیشیا کودی گئی جو اس سے قبل 1962ء میں بھی ان کھیلو ں کی میزبانی کر چکاہے۔ اٹھارہویں ایشین گیمز کی ٹارچ ریلی 17جولائی کو پہلی ایشیائی کھیلوں کے میزبان میجردھیان چند نیشنل اسٹیڈیم نیودہلی سے شروع ہوکر انڈونیشیا کے یوم آزادی 17اگست کوجکارتہ میں نیشنل مونومنٹ پرختم ہوگی اورپھر 18 اگست 2018ء کو88000افراد بیٹھنے کی گنجائش رکھنے والے جی بی کے اسٹیڈیم جکارتہ میں ان کھیلوں کی افتتاحی تقریب منعقد ہوگی جبکہ اختتامی تقریب بھی 2ستمبر کو اسی اسٹیڈیم میں ہی ہوگی۔ اٹھارہویں ایشین گیمز میں اولمپک میں شامل 28مستقل کھیلوں سمیت کل40کھیلوں کے 462مقابلے شامل ہوں گے جن میں ٹوکیواولمپکس 2020ء میں شامل بعض اضافی کھیل بھی رکھے گئے ہیں۔ 13کھیلوں کے مقابلے جکارتہ میں ہونگے جبکہ باقی ایونٹس پلمبرنگ میں منعقد ہوں گے۔ انڈویشین گورنمنٹ اورایشین گیمز کی آرگنائزنگ کمیٹی نے اولمپکس کے بعد دنیا ئے کھیل کے دوسرے سب سے بڑے مقابلوں میں کھلاڑیوں کی رہائش کے لئے 10ایکڑ اراضی پر مشتمل اتھلیٹس ولیج تعمیر کیاہے جس میں 7124اپارٹمنٹس پر مشتمل 10ٹاورز بنائے گئے ہیں جن میں 22,272اتھلیٹس اور آفیشلز کی رہائش کی گنجائش ہوگی جبکہ ایشین گیمز کے لئے بہترین ٹرانسپورٹ سسٹم اور انفراسٹرکچر فراہم کرنے کے لئے بھی انڈنیشین حکومت دن رات کوشاں ہے اور حق میزبانی ادا کرنے کیلئے بھرپور تیاریاں جاری ہیں۔ پاکستان ایشین گیمز میں 28کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لے گا جن کے لئے پاکستان سپورٹس کمپلیکس اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں کوچنگ کیمپس جاری ہیں لیکن اس حوالے سے اگر ملکی وقار کو مدنظر رکھ کرغیرجانبدارانہ تجزیہ کیاجائے تو پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور پاکستان سپورٹس بورڈ اپنی حد تک اپنا کردار ٹھیک ادا کر رہے ہیں لیکن دوچار کھیلوں کے سوا ہماری کھیلوں کی دیگر قومی فیڈریشنوں کے حکام کی سیاست اورپسند وناپسند نے قومی وقار کو داؤ پر لگا رکھاہے۔ سب سے پہلے قومی کھیل ہاکی کاجائزہ لیاجائے تو پاکستان ہاکی فیڈریشن نے کوچ ہالینڈ اورفزیکل ٹرینر آسٹریلیا سے منگوایا جبکہ اپنے بہترین قومی کوچز بھی گرین شرٹس کی صلاحیتوں کودن بدن نکھارنے کیلئے کوشاں ہیں، اس حوالے پی ایچ ایف کے سیکرٹری اولمپیئن شہباز سنیئر کاکہناہے کہ جس طرح فیڈریشن ٹیم کو سپورٹ کررہی ہے اورمحنت کی جارہی ہے توانشاء اللہ پاکستان ہاکی ٹیم ایشین گیمز کافائنل کھیلے گی اورقوم کو خوشخبری دے گی، ہاکی کے بعد اگر ابھی سے میڈلز کی توقع کی جاسکتی ہے تو صرف ریسلنگ، ویٹ لفٹنگ ،مارشل آرٹس اوراتھلیٹکس میں ہوسکتی ہے، پاکستان ریسلنگ فیڈریشن کی کمان جب سے سیکرٹری ارشد ستار پہلوان کے ہاتھ میں آئی ہے تو پاکستان ٹیم ہر ایونٹ میں میڈلز لارہی ہے اورخصوصاََ محمدانعام بٹ، محمدبلال عرف بلی بٹ ، محمداسدبٹ ،عبدالوہاب بٹ، طیب رضا اعوان سمیت ہمارے متعدد پہلوان سبزہلالی پرچم سربلند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ ٹیم کی کوچنگ کیلئے استاد انورپہلوان اور سہیل رشید پہلوان جیسے ماہرکوچز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں ، ویٹ لفٹنگ میں ہمارے نوجوان ویٹ لفٹرز طلحہ طالب اور نوح دستگیربٹ کی کارکردگی بہت شاندار جارہی ہے اور امیدہے کہ وہ بھی پاکستان کیلئے میڈلز ضرور لائیں گے، مارشل آرٹس میں بھی پاکستان ہمیشہ وکٹری اسٹیڈز تک پہنچتاہے اور اگر ابھی سے اتھلیٹس کی ٹریننگ پر خصوصی توجہ دی جائے تو بہترین نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں، اتھلیٹکس میں بھی ہمارے کھلاڑی میڈلز جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ہمیں اچھی امید رکھنی چاہئے اسی طرح پاکستان فیڈریشن بیس بال بھی تقریباََ سال بھر کوچنگ کیمپ جاری رکھتی ہے اور فیڈریشن کے صدر سیدفخرعلی شاہ اپنے والد سیدخاورشاہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قومی بیس بال ٹیم کو انٹرنیشنل مقابلوں کیلئے بھرپور تیاری کروا رہے ہیں۔ مذکورہ بالا ٹیموں کے علاوہ اگر نظر دوڑائی جائے تو ایسی قومی ٹیم کم ہی نظر آتی ہے جو ایشین گیمز میں میڈلز لانے کی صلاحیت رکھتی ہو اس کی وجہ ٹیلنٹ کی کمی نہیں بلکہ سیاسی مداخلت اور فیڈریشن حکام کی ذاتی پسند وناپسند ہے ، اس کی واضح مثال پاکستان آرچری ٹیم ہے جس کا پاکستان سپورٹس بورڈ کے ساتھ الحاق نہ ہونے کے باوجوداسلام آباد میں کوچنگ کیمپ لگایاگیااور ٹیم کی سلیکشن بھی ٹرائلز کے ذریعے ہوئی جو اچھی بات ہے لیکن ٹریننگ کیمپ میں قومی آرچرز کی ٹریننگ کابیڑہ ایسے ملاحوں کے ہاتھ میں دے دیاگیاجو خود آرچری (تیزاندازی) کے بنیادی اصولوں سے بھی ناواقف ہیں اورملک میں بہترین کوالیفائیڈ کوچز موجود ہونے کے باوجود نااہل کوچز کو ٹیم پرمسلط کردیاگیا جبکہ کیمپ کمانڈنٹ بھی ایک ایسے شخص کوبنایاگیا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس سے پہلے وہ پارکوں میں دس، دس روپے لے سیروتفریح کیلئے آنے والے بچوں سے نشانے لگواتاتھا، یہی وجہ ہے کہ ٹرائلز میں پہلے نمبر پر آنے والا پاکستان واپڈا کا بہترین آرچر حافظ عبدالرحمان کیمپ چھوڑ کر چلاگیاہے ، ذرائع کے مطابق اس نے اپنے واپڈا حکام کوبتایا کہ نان کوالیفائیڈ کوچز کی نگرانی میں میری گیم خراب ہونے کاخدشہ ہے لہٰذا جب تک کوئی کوالیفائیڈ کوچ ٹیم کے ساتھ نہ لگایاجائے وہ لاہور میں اپنے کوچز کے ساتھ ٹریننگ کرے گا، اگر آرچری کی مرد وخواتین ٹیموں کاجائزہ لیاجائے توچاروں خواتین آرچرز کاتعلق پنجاب اورچارمیں سے تین مرد آرچرز کاتعلق پنجاب اورایک کا تعلق آزادکشمیر سے ہے جو اپنے ڈیپارٹمنٹس پاکستان آرمی اورواپڈا کی نمائندگی کررہے ہیں لیکن پاکستان آرچری فیڈریشن کے سیکرٹری وصال محمدخان نے آرچری ٹیم کے ساتھ ایک کوچ مارشل آرٹ کے کھلاڑی کو لگایا جبکہ دوسرے کوچ کی اہلیت صرف فیڈریشن کے سیکرٹری کے ساتھ ذاتی تعلقات بتائے جاتے ہیں جبکہ کیمپ کمانڈنٹ صرف اس لئے ایک نااہل شخص کولگایاگیا تاکہ اسلام آباد میں آرچری کی پروموشن کیلئے کوئی دوسرا شخص آگے نہ آسکے۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر لیفٹیننٹ جنرل(ر) سید عارف حسن (جو خود آرچری فیڈریشن کے صدربھی ہیں) اورپاکستان سپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹرجنرل عامر علی احمد کو پاکستان کاوقار ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آرچری ٹیم کے کوچز اورآفیشلز کوفوری طور پرتبدیل کیاجائے ورنہ اس کیمپ سے صرف قومی دولت ضائع کرنے کے سوا کچھ فائدہ نہیں ہوگا اسی طرح ایک اعلیٰ سچحی ٹیکنیکل کمیٹی بنائی جائے جو تمام ٹریننگ کیمپوں میں ٹیموں کے ساتھ لگائے گئے آفیشلز کی اہلیت کاجائزہ لے کر پی اواے اور پی ایس بی کے سربراہان کورپورٹ پیش کرے تاکہ گرین شرٹس کی کارکردگی بہتر بنائی جاسکے اور پاکستان ایشین گیمز میں زیادہ سے زیادہ میڈلز جیت سکے۔

error: Content is protected !!