شمشیر بے نیام تحریر: سید علی عباس

کھیل کسی بھی ملک کا مثبت اور ثقافتی چہرہ ہوتے ہیں اوراقوام عالم میں اس ملک کی پہچان اور شناخت کا باعث بنتے ہیں. کھیلوں کی تنظیمیں اپنے ممالک کے پرچم بلند رکنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگادیتی ہیں اس دوڑ میں کئی حساس قسم کے معاملات اور سیاست کا عمل دخل ہونا بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا

جاسکتا.1947 میں اپنی نوعیت کی انسانی دور کی سب سے بڑی ہجرت کے روح سوز واقعات کی گھٹڑی سر پر اٹھائےپاکستان نے اپنے معاشی چیلنجزکا سامنا کرنے کے باوجود 1948 میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے نام سے ادارہ قائم کیا اور پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم نے اپنا پہلا انٹرنیشنل میچ لندن اولمپکس میں 02 اگست 1948میں کھیلا جہاں اس نے بیلجیم کو 1-2 گول سے شکست دی.1960، 1968 اور ا984 اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والی قومی ہاکی ٹیم نے اقوام عالم میں سبز ہلالی پرچم کو سربلند کیا اور پاکستان کی شناخت کا مضبوط ذریعہ بنی.فتوحات کا سلسلہ بڑھا تو 1971،1978،1982 اور 1994 میں عالمی چیمپین ہونے کا اعزاز بھی پاکستان کے حصے میں آیا

.چیمپینز ٹرافی میں تین گولڈ میڈلز سمیت آٹھ مرتبہ ایشیئن چیمپین ہونے کا اعزاز کے باعث جہاں پاکستان کی اقوام عالم میں عزت و توقیر میں چارچاند لگے وہاں روائتی حریف سمیت دیگر حریفوں کو اس میدان میں پاکستان کو نیچا دکھانے کے مواقع ڈھونڈنے کی فکر لاحق ہونے لگی.پاکستان ہاکی کے خالف سازشیں بننے اور اسکی شہرت اور کامیابی سے خائف حریفوں نے کھیل کے میدان کو شطرنج کی بازی میں بدلنا شروع کیا اور مہرے چلنا شروع کیے.


“مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” کے مصداق پاکستان ہاکی کو ایک سازش کے تحت دفاعی کھیل کی حکمت عملی پر قائل اورعمل پیرا کیا گیا، پاکستانی کوچز کو ایک خاص سوچ کا تابع کیا گیا اور ہنس کی چال چلتے چلتے کوا اپنی چال بھی بھول بیٹھا اور جارحانہ کھیل کے ناپید ہوتے ہی قومی کھیل میں زوال کے بادل منڈلانے لگے. پاکستان ہاکی جو کہ انٹرنیشنل ہاکی میں ایک بے تاج بادشاہ کی حیثیت رکھتی تھی دھیرےدھیرے اس شطرنج کے مہروں سے بازی پر بازی ہارتی گئی. ٹیکنیکل آفیشلز کا شعبہ میں پاکستان کوآگے بڑھنے کو مواقع میسرنہیں

جس کے سبب ہم انٹرنیشنل سطح پرکسی بڑے ایونٹ میں نمائیندگی کی اہلیت نہیں رکھتے.بین الاقوامی عدم توجہی کا شکار ٹیکنیکل آفیشلزکا شعبہ آج ایک زنگ آلود کھٹارہ انجن کی طرح پاکستان ہاکی میں دھواں مارتا چل رہا ہے. ایمپائرز میں گولڈن وسل کا اعزاز حآصل کرنے والاواحد پاکستانی ایمپائرحیدر حسین آج کسی میدان میں کھڑا نظر نہیں آتا اور اسکے بعد شائد کسی ایمپائر کو اس مقام تک پہنچنے میں ایک طویل عرصہ درکار ہو.


قومی کھیل میں پاکستان برازیل کے شہرریو ڈی جنیرو میں منعقد ہونے والے 2016اولمپکس کے بعد اب 2020 میں جاپان کے شہرٹوکیو میں منعقد ہونے والے اولمپکس میں بھی شرکت سے باہر ہوگیا.اس امرکے محرکات، اسباب اور پہلوؤں پرراقم الحروف ایک سپورٹس مینجمنٹ انالسٹ ہونے کے ناطے اپنا ذاتی تجزیہ اور رائے رکھتا ہے. پاکستان ہاکی ٹیم جو کہ 2018 میں انڈیا کے شہر بھوبنیشور میں ہونے والے عالمی کپ میں شرکت کے بعد سے یورپی ممالک کے خلاف کوئی انٹرنیشنل میچ نہ کھیل پائی ایک طویل عرصہ کے بعد میدان میں اتری. کھیل،

ترغیب،ترکیب اور سینئر و جونیئرکھلاڑیوں کا امتزاج و تجربہ عالمی نمبر17 پاکستان کو عالمی نمبر3 ہالینڈ ٹیم کے خلاف پہلے میچ میں ہی دنیائے ہاکی کو ورطہ حیرت میں مبتلاء کرگیا. پاکستان ہاکی ٹیم کے بہترین کھیل نے جہاں ناقدین کو انگشت بدندان کردیا وہاں انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے تخت و تاج کو بھی زلزلہ کی کیفیت میں مبتلاء کردیا. جہاں ناقدین ہاکی اور شائقین ہاکی نے قومی ہاکی ٹیم کے کھیل کو سراہا وہاں ماہرین ہاکی نے انتہائی غیرمحسوس انداز میں ہونے والی کھیل کی سیاست کو بھی بھانپ لیا.پاکستان ہاکی ٹیم جوکہ میچ کے آخری گیارہ سیکنڈز تک تین کے مقابلہ میں چار گول کی برتری بنائے ہوئے تھی اچانک سے ایمپائرنگ اور ریفرل سسٹم کے جانبدارانہ فیصلے کی بھینٹ چڑھی اور یکے بعد دیگرے جانبدارانہ ایمپائرنگ

کےدوفیصلوں سے ہالینڈ ٹیم کو گول کرنے کا موقع فراہم ہوا جو کہ کارگر ثابت ہوا اور پاکستان4-4 گول سے ڈرا کھیل کر میدان سے باہر آیا. دوسرے میچ میں پہلے کواٹر میں ہی دو متنازعہ فاولزاور گولوں نے ایمپائرنگ کے معیار پر بے شمار سوالات اٹھائے.ان دیکھے اشاروں پرایمپائرزاورٹیکنیکل آفیشلز کی ان گیم چینجرموومنٹس نے قومی ہاکی ٹیم کو اچھا خاصا نقصان پہنچایااور پاکستان کو ایک بند گلی میں لاکھڑا کیا.
قارئین کی توجہ اور دلچسپی کے لئے حسب مضمون چند چشم کشاء حقائق یہ ہیں کہ انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے صدرنریندر بترا پاکستان کےروائتی حریف ملک انڈیا سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان کی انٹرنیشنل ہاکی میں مخالف لابی کو انکی سپورٹ بھی حاصل ہے.

حیرت انگیز معمہ یہ ہے کہ ایک ماہ قبل ہالینڈ ہی کے دورہ سے واپس آنے والے پاکستانی کھلاڑی گول کیپر وقار یونس اور پاکستان ہاکی کیمپ کے فٹنس ٹیسٹ میں سب سے بہترین رزلٹ کے حامل فارورڈ حماد الدین کے ویزے ایف آئی ایچ کوالیفائرز میچز میں نامنظور ہونا کس بات کا شاخسانہ ہوسکتا ہے اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.اس ثقافتی جنگ میں پسپائی اورناکامی کے محرکات میں پاکستان کےروائتی حریف ملک انڈیا سے تعلق رکھنے والےانٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے صدرنریندربترا کی ذات کو تو بظاہرکوئی فائدہ نظر نہیں آتا لیکن ناقدین ہاکی اس امر کو خارج از امکان بھی قرار نہیں دیتے. ماہرین ہاکی کے مطابق اولمپکس کوالیفائینگ میچز کا اتنی عجلت میں دنوں کی بجائے گھنٹوں کے فرق سے میچ شیڈول کا جاری کرنا اور بلاتوقف پے در پے میچ شیڈول بھی انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کےتھنک ٹینک کمپی ٹیشن کمیٹی کا فیصلہ تھا.

پاکستانی کھلاڑیوں کا کھیل بالخصوص ہالینڈ کے خلاف پہلا میچ انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے ارباب اختیارکے لئے 440 وولٹ کا جھٹکا رہا جس سے عالمی نمبر تین ٹیم کے پاؤں سے زمین سرکا ڈالی. جس پر ایمپائرزاور ٹیکنیکل آفیشلز بھی کئی متنازعہ فیصلے کرتے نظر آئے اور ان فیصلوں پر نظرثانی کی درخواست کرنے پر پاکستانی کھلاڑی راشد کوگرین کارڈ دکھا کر میدان سے باہر جانے کا حکم بھی صادر کیا گیا. دوسرے میچ میں پاکستانی گول کیپر امجد علی کا ان فٹ ہونا اورمتبادل گول کیپرمظہرعباس کی بدترین پرفارمنس بھی کھیل کا مورال ختم کرنے میں کارفرمارہی. راقم الحروف قومی ٹیم کی پرفارمنس کو آئیندہ کالم میں تفصیل سے تحریر کرے گا، بحرحال اس معاملہ سے توجہ بٹانے کے لئےکھیل

کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ایف آئی ایچ کی جانب سے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پرہالینڈ کے کوچ کی سپیشل ویڈیو بھی جاری کی گئی جس میں عالمی نمبر 17 پاکستان کے خلاف دوسرے میچ میں ہرگول پر انکا ری ایکشن اور جوش و خروش قابل دیدنی تھا.جس سے ایسا لگتا تھا کہ موصوف کی عالمی نمبر تین ٹیم نے شائد اولمپکس چیمپین کو ہرادیا ہے.


راقم الحروف اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ پاکستان ہاکی ٹیم کن حالات اور مشکلات سے نبردآزما ہوکراس ایونٹ میں شریک ہوئی لیکن کیا محض ٹیم کی پرفارمنس کو ہی جانچنا مناسب ہوگا.ناقص ایمپائرنگ، غیریقینی ریفرل سسٹم اور اسکے متنازعہ فیصلے کیا سپورٹس پولیٹکس کا حصہ اور شاخسانہ نہیں ہوسکتے. کیا ہالینڈ کے ویزوں کا اجراء نہ کروا کے قومی کھلاڑیوں کو جان بوجھ کر نہیں روکا جاسکتا. کھیلوں میں گھٹیا سیاست اورمنافقت کی گندی اور باثبوت مٹال کے طور پرقارئین

ذرا غور کریں کہ پاکستان کے روائتی حریف ملک انڈیا سے متعلق رواں سال فروری میں آئی او سی کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں انڈیا میں اولمپکس سمیت دیگر تمام قسم کے مقابلوں کی میزبانی کی درخواستوں پر پابندی لاگو کردی تھی جسکی بنیادی وجہ انڈیا کی ہمسایہ ملک پاکستان کے متعلق بغض اور خفیہ کھیل کی سیاست کے تحت دو پاکستانی

کھلاڑیوں کے ویزا کے اجراء کی مستردگی میں ملوث ہونا پایا جانا تھا.جو کہ آئی او سی کی جانب سے کی گئی انکوائری میں ثابت ہوا. جس کی وجہ سے انڈیا آج آئی او سی کی جانب سے اولمپکس سمیت کسی بھی ایونٹ کی میزبانی کی پابندی کا شکار ہے. سپورٹس پراکسی وارمیں ملوث ملک انڈیا سے تعلق رکھنے والا نریندربترا آج انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کا سربراہ ہے.پاکستان زندہ باد، پاکستان ہاکی پائیندہ باد

error: Content is protected !!