اعظم ڈار کو ڈی ڈی جی ٹیکنیکل بنانے پر ملازمین سراپا احتجاج

اسلام آباد(سپورٹس لنک رپورٹ)پاکستان سپورٹس بورڈ کے ملازمین نے گریڈ 21 زکوٹا جن پی ایس بی کے نئے ڈی جی عارف ابر اہیم کی زیر سر پرستی ادارہ میں سیاہ دور کو نئی وسعتیں ملنا شر وع ہوگئیں، ڈی جی پی ایس بی عارف ابراہیم کی جانب سے پہلے سے چار پوسٹوں(ڈائر یکٹر نیشنل فیڈریشنز۔ڈائریکٹر ایڈمن۔ڈائریکٹر میڈیا اور ٹرانسپورٹ مینجر) کے بعد اب مزدور دشمن اور افسران دشمن محمد اعظم ڈار کو ڈی ڈی جی ٹیکنیکل کے عہدے پر ترقی دینے کے فیصلہ پر بطور احتجاج ڈی جی پی ایس بی کے دفتر کا گھیراو کرتے ہوئے انہیں پانچ گھنٹے دفترمیں محصور کر دیا۔ ملازمین اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کرتے رہنے کے ساتھ ساتھ محمد اعظم ڈار کی جانب سے روا رکھی جانے والی مزدور دشمن  پالیسیز اور ملازمین کی ترقیوں کی راہ میں روڑے اٹکانے کے خلاف احتجاج کرتے اور انکے خلاف نعرے بازی کرتے رہے ۔ ملازمین کو اسطرح بپھرے دیکھ کہ چند روز قبل ہی تعینات ہونے والے گریڈ21 زکوٹا جن ڈی جی پی ایس بی عارف ابراہیم جن کی شہرت پہلے سے ہی اچھی نہیں اور جنکے بارے میں یہ تاثر پایا جارہا ہے کہ وہ کسی خاص مشن پر پی ایس بی میں تعینات کئے گئے ہیں ،نے پہلے تو ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملازمین کے احتجاج کی پرواہ نہیں کی تاہم بعد ازں ملازمین کی جانب سے احتجاج میں شد ت کے بعد انہوں نے ان سے بات چیت کرتے ہوئے انہیں پیر تک انکے مطالبات پر عملدرآمد کرانے کی یقین دہانی کرا دی ۔ ادھر دوسری جانب مبینہ طور پر جعلی ڈگریوں کے حامل افسر محمد اعظم ڈار جنپر طویل عر صہ سے جعلی اسناد کا حامل ہونے کا الزام چلا آرہا ہے اور اس حوالے سے مختلیف قومی اخبارات میں خبریں بھی شائع ہو چکی ہیں، نے اس احتجاج کے بعد اپنے قریبی ساتھیوں کی محفل میں قسم اُٹھائی ہے کہ وہ ملازمین کے مطالبات اور انکی ترقیوں کے معاملے کو اب کسی صورت سر نہیں چڑھنے دیں گے۔ جبکہ دوسری جانب مزدوروں اور سالہا سال سے ترقیوں کے انتظار میں بیٹھے ہوئے افسران نے بھی عہد کیا ہے کہ وہ اعظم ڈار کی پانچ عہدوں پر تعیناتی اور اسکی جعلی اسناد کے معاملہ کو لیکر سپریم کورٹ۔اسلام آباد ہائیکورٹ اور نیب کو خط لکھیں گے تاکہ وہاں سے اسکے خلاف انکوائری شروع ہو سکے پی ایس بی ملازین کی ایک بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ اگر اس بار محمد اعظم ڈار کے خلاف انکوائری شروع ہوئی تو وہ اسکے کرتوتوں کے حوالے سے تمام شواہد خود ان تحقیقاتی اداروں اور سُپریم کورت اور ہائیکورٹ میں پیش کریں گے۔

error: Content is protected !!