رضی بیڈمنٹن اکیڈمی کا روشن مستقبل

تحریر۔نوازگوھر
٭سال 2018؁ء بیڈمنٹن میں شاندار فتوحات کے ساتھ تمام کھلاڑیوں کو خراجِ تحسین کوچ رضی الدین احمد
٭نیشنل جونیئرز بیڈ منٹن چیمپئن شپ لاہور کی فاتح رضی اکیڈمی کی کوئٹہ گرلز الجا طارق اور سمیّہ طارق نے پاکستان بیڈمنٹن فیڈریشن کے 65سالہ دور میں بلوچستان کے لئے پہلی تاریخی فتح حاصل کی ۔
٭نواز گوہر کی سربراہی میں رضوان علی اور ذیشان گوہر نے نیشنل ڈبلز بیڈ منٹن چمیپئن شپ برائے اسپیشل افراد اایبٹ آباد جیت کر رضی اکیڈمی کے لئے تیسری بار ٹائٹل حاصل کیا ۔
٭12سالہ امر خالد جنجوعہ نے نیشنل جونئیرز انڈر 14 سنگل میں سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی اور اپنے بہترین ٹیکنیکل کھیل کی وجہ سے سیکرٹری PBF واجد علی سے پروفیسر کا خطاب پایا ۔


٭ساتویںجماعت کی طالبہ اور اکیڈمی کی سب سے کم سن کھلاڑی 13 سالہکنز الایمان بنت رافع پنچاب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام راولپنڈی ڈویژن انٹر اسکولز گرلز چیمپئن شپ دو مرتبہ 2016-17؁ء جیت چکیں ہیں ۔ 2018؁ء میں کنزا نے معصومانہ انداز میں یہ کہہ کر شرکت سے انکار کر دیا کہ ’’سر میرے مقابلے میں کوئی لڑکی ہے ہی نہیں تو مزہ نہیں آرہا ،میں بڑے ہو کر بیڈ منٹن کھیلوں گی ‘‘۔ اس سال کنزا کی عدم موجودگی کے باعث راولپنڈی ابتدائی رائونڈ میں ہی یہ مقابلہ ہار گیا ۔
٭مہد رافع اور مبارزبن رافع ٹوئن سٹی (راولپنڈی ، اسلام آباد ) انڈر 16-کے چیمپئن قرار پائے ۔
٭زیر تربیت جمشید طارق بھٹہ (کپتان ) محمد یسین، یاسر خان درانی اور عاصم خورشید نے انٹر اسٹرٹیجک سپورٹس گالا 2017؁ء میں KRLکوبا عزت و احسن طریق پر کامیابی سے ہمکنار کیا اور ٹیم ایونٹ میں گولڈ میڈل حاصل کیا ۔


سال 2016؁ء ہمیشہ کی طرح رضی بیڈ منٹن اکیڈمی راولپنڈی کے لئے بیدمنٹن میں نمایاں کامیابیوں کا سال رہا۔ اکیڈ می کی کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی الجا طارق نے انڈر 18- اور اِن کی بہن سمیّہ طارق نے انڈر 16- کیٹگری میں پاکستان بیڈ منٹن فیڈریشن کے زیرِ اہتمام نشتر پارک ہال لاہور میں ہونے والی نیشنل جونیئر زگرلز بیڈ منٹن چیمپئن شپ اکتوبر 2018؁ء کا سنگل ٹائٹل جیت کر بلوچستان کے لیے تاریخی فتح حاصل کی ۔ پاکستان بیڈ منٹن فیڈریشن کی 65سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوئٹہ گرلز نے فائنل میں پنجاب کی مضبوط کھلاڑیوں کو شکست سے دو چار کیا۔ ان سے قبل بلوچستان سے کبھی کوئی کھلاڑی(مرد ۔خواتین) فائنل تو در کنار ابتدائی رائونڈز بھی کوالیفائی نہ کر سکا تھا۔
جونیئرز انڈر18- سنگل فائنل میں الجا طارق نے پنجاب کی امل منیب کو 21-15 ،15-21 اور 21-11 سے جبکہ سمیّہ طارق نے انڈر 16- کے یک طرفہ مقابلے میں پنجاب کی زینب چودھری کو 21-05اور 21-09 سے ہرایا ۔پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل خالد محمو د نے چمپیئن گرلز کو ٹرافی اور انعامات تقسیم کیے۔ اپنے خطاب میں انھوں نے ان گرلز کی اس فتح کو صوبہ بلوچستان کے لئے تاریخی اعزاز قرار دیا اور کہا کہ بلوچستان جہاں کھیلوں کی ترقی کے محدود وسائل ہیں وہاں سے الجا اور سمیّہ کا پنجاب کی کھلاڑیوں کو شکست دینا واقعی لائق تحسین ہے ۔


پاکستان بیڈ منٹن فیڈریشن کے صدر نثار شہوانی نے جونیئر ز چیمپئن شپ جیتنے پر دونوں بہنوں کومبارک باد دی اور کہا کہ ہم آیندہ بھی اِ ن کی حوصلہ افزائی جاری رکھیں گے۔ واجد علی چودھری سیکرٹری PBF نے دونوں کھلاڑیوں کی اعلیٰ کارکر دگی کو سراہتے ہوئے انہیں مستقبل کے لیے قیمتی سرمایہ قرار دیا۔
الجا اور سمیّہ نے اپنی اس عظیم کامیابی کو اپنے والدین کی دعائوں اور کوچ رضی الدین احمد کی محنت سے منسوب کیا اور کہا کہ ہمیں PBF کے صدر نثارشاہوانی جن کا تعلق بھی کوئٹہ سے ہے کا خصوصی تعاون حاصل ہے۔ تا ہم کوئٹہ میں کوچنگ کا فقدان اور گرلز کھلاڑیوں کو در پیش سماجی مسائل کی وجہ سے ہم بیڈ منٹن سیکھنے کے لیے اسلام آباد شفٹ ہو گئے ہیں۔ ہم IMCG-G-6/4اسلام آباد میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں انٹرنیشنل بیڈ منٹن کوچ رضی الدین کے زیر نگرانی بیڈ منٹن اکیڈمی میں ٹریننگ ہمارے لئے باعث فخر ہے ۔ہماری خواہش ہے کہ ہم جلد قومی چیمپئنشپ جیت کر پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر کامیابی حاصل کر یں۔

دریں اثناء انٹر نیشنل کوچ رضی الدین احمد نے صدر PBF نثار شاہوانی کو خصوصی مبارک باد دی کہ وہ خوش قسمت پریزیڈنٹ ہیں جن کی سربراہی میں بلوچستان کو پہلی تاریخی فتح حاصل ہوئی۔انہوں نے الجا اور سمیّہ کے بہترین کھیل کی تعریف کی اور کہا کہ الجا کی عمر ابھی14 سال ہے جبکہ سمیّہ کی عمر13 سا ل ہے۔ انہوں نے اپنے سے بڑی کیٹگری میں چیمپئن شپ جیت کر جس اعتماد اور پختگی کا اظہار کیا وہ یقیناً مستقبل میں بڑی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس سے قبل جون 2018؁ ء میں رضی بیڈمنٹن کے انچار ج پیرا ونگ نواز گوہر کی سربراہی میں اکیڈمی کے رضوان علی اور ذیشان گوہر نے 27ویں اسپورٹس فیسٹول برائے اسپیشل افراد ایبٹ آباد میں نیشنل ڈبلز بیڈ منٹن چیمپئین شپ جیت کر اکیڈمی کے لئے تیسری بار قومی اعزاز حاصل کیا ۔ گزشتہ نتائج کے مطابق اکیڈمی کے رضوان علی اور شاہد حسین نے 2015، بابر سلطان اور ذیشان گوہر نے 2016؁ء جبکہ رضوان علی اور ذیشان گوہر نے 2018؁ء میں نیشنل ٹائٹل جیتا جو کہ اکیڈمی کے لئے ایک ریکارڈ ہے ۔ 2017؁ء میں اکیڈمی محدود وسائل کے بناء پر شرکت نہ کر سکی تھی ۔ سپیشل افراد کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ فیسٹول ہر سال باقاعدگی سے ڈائریکٹوریٹ آف سپورٹس خیبر پختونخواہ کے زیر اہتمام ایبٹ آباد ہی میں منعقد کیا جاتا ہے جس میں پورے پاکستان سے پولیو ڈس ایبلڈ کھلاڑی ان کھیلوں کے مختلف ایونٹس میں جوق در جوق حصہ لیتے ہیں ۔ اس سال ان کھیلوں کی میزبانی کا شرف DGسپورٹس KPKجنید خان کے حصہ میں آیا جن کے بہترین انتظام و انصرام کو تمام حلقوں میں سراہا گیا ۔ اگلے سال 2019؁ء میں رضی اکیڈمی معذور خواتین کھلاڑیوں کو بھی شامل کرے گی جس کے لئے گرلز کھلاڑی نواز گوہر سے رابطہ کر سکتی ہیں ۔ رضی اکیڈمی کے بانی اور ہیڈ کوچ رضی الدین احمد نے بتایا کہ سال 2019؁ء میں اکیڈمی ایک نئے ویژن کے ساتھ سامنے آ رہی ہے جس کے تفصیلات عوام اور شائقین سپورٹس کو جلد فراہم کر دی جائیں گی ، لیکن اس سے قبل میں ان تما م کھلاڑیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنھوں نے قومی سطح پر اکیڈمی کا نام روشن کیا یا بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کی اور کسی بھی حوالے سے میرے ساتھ رہے ۔


ماضی میں اپنے کھلاڑیوں کی شاندار کامیابیوں کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ گورنمنٹ ڈگری کالج اٹک کی میڈم ریحانہ ارشد کا خصوصی تعاون حاصل رہا ۔ راولپنڈی میں میڈم ریحانہ واقعی گرلز کھیلوں کے حوالے سے اپنی ذات میں ایک ادارہ تھیں اور آج کل امریکہ میں مقیم ہیں ۔ اس کالج کی چار کھلاڑی حنا سجاد ، نگہت کوثر ، ماہ پارہ (مرحوم) اور سائرہ بلقیس جو بعد میں اٹک گرلز کے نام سے مشہور ہوئیں ، انھوں نے میرے زیر تربیت 2004؁ء سے 2015؁ء تک کا عرصہ گزارا ۔ ان پر بلاشبہ فخر کیا جاسکتا ہے ۔ انھوںنے 11سال تک بیڈ منٹن کھیل میں حکمرانی کی اور انٹر کالجیٹ سے پنجاب یونیورسٹی اور آل پاکستان انٹر یونیورسٹیز کے علاوہ راولپنڈی ڈویژن ، پنجاب یوتھ فیسٹول 2012-14؁ء اور چیف منسٹر کپ میں بلا شرکت غیر لا تعداد کامیابیاں حاصل کیں ۔اٹک سے سعد ارشد میرے ساتھ بہترین معاون کوچ رہے ۔گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی ٹیم پر مشتمل ان اٹک گرلز نے جب نومبر 2010؁ء میں 50سال سے ناقابلِ شکست رہنے والی پنجاب یونیورسٹی کی ٹیم کو تاریخ میں پہلی بار3-2سے شکست سے دو چار کیا تو بابا انوار الحق ڈائریکٹرسپورٹس پنجاب یونیورسٹی لاہور کے کوچز پر برس پڑے اور ٹھیٹ پنجابی لہجے میں بولے ’’ ائوے لاہوریو شرم کرو ، اج پنڈ دی کڑیاں تہانوں لے ڈُبیں ‘‘۔


بابا انوار الحق میرے محسن ہیں انھوں نے مجھے ایم ایس سی کیمسٹر ی میں داخلہ دیا اُس وقت میں زرعی ترقیاتی بنک اسلام آباد میں بطور کھلاڑی بھرتی ہو چکا تھا لیکن بابا نے مجھے پاکستان میں متوازی فیڈریشن کی گندی سیاست سے بچھایا اور تعلیم کی طرف راغب کرتے ہوئے کھیل سے دور کر دیا ۔ میں نے ماسٹرز مکمل کیا اور انہیں پنجاب یونیورسٹی چیمپئن ہونے کے علاوہ دو بار آل پاکستان انٹر یونیورسٹیز چیمپئنشپ جیت کر دی ۔ مجھے چونکہ پاکستان بیڈ منٹن فیڈریشن کے کوچز اور ان سے منسلک ڈیپارٹمینٹل کوچز کے بارے میں مکمل معلومات تھیں اس لئے بابا کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے میں نے بھی اٹک گرلز کو باوجود اچھی آفرز کے پاکستان کی قومی اور ڈیپارٹمینٹل بیڈ منٹن نہیں کھیلنے دی اور انہیں ایم ایس سی سپورٹس سائنسز کی طرف راغب کیا ۔ آج ماشااﷲ سب باعزت روزگار کے ساتھ زندگی گزار رہیں ہیں ۔ ماضی کو یاد کرتے ہوئے رضی الدین نے بتایا کہ شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیر پور (سندھ) میں ہونے والی آل پاکستان انٹریونیورسٹیز ویمن بیڈ منٹن چیمپئن شپ 2015؁ء میں کامیابی میری زندگی کا یاد گار لمحہ تھا ۔ میری بہترین شاگرد اٹک گرلز حنا سجاد اور ماہ پارہ پنجاب یونیورسٹی کی ٹیم میں تھیں جبکہ رباب امتیاز اور غزالہ نے اسی سال ٹیم جوائن کی ۔ حنا سجاد اور ماہ پارہ نے لاہور کے کوچز سے ٹریننگ لینے سے انکار کر دیا اور پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کو مجبوراً ان کی خواہش کے مطابق مجھے کال کرنا پڑا ۔ اپنے کوچ کے لئے پاکستان جیسے ملک میں اتنا بڑا سٹینڈ لینا ان کھلاڑیوں کی استاد کی عظمت اور محبت کا کھلا اظہار تھا اور استاد کی عظمت یقینا کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے ۔ مجھے ٹریننگ کے لئے صرف تین ماہ ملے اور اس میں سے بھی میری مصروفیت کے مطابق میں نے کل 36دن ٹریننگ کروائی ۔ میرے پاس چیمپئن شپ جیتنے کا کوئی راستہ نہیں تھا نہ فیزیکل فٹنس اور نہ کورٹ ٹریننگ کے لئے مناسب ٹائم ۔ میں نے اتنی بڑی چیمپئن شپ صرف ایک نئی سروس کے ذریعہ جیتی ۔ سنگل اور ڈبلز میں کراس ریکٹ ہیڈ کے ساتھ جس اینگل، جگہ اور سپیڈ سے یہ سروس کروائی جاتی ہے وہ پاکستان میں اب بھی کوئی نہیں جانتا ، اس سروس کے ذریعہ مخالف کھلاڑی کو مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ صرف اور صرف مطلوبہ ریٹرن ہی دے ۔ حنا سجاد اور ماہ پارہ عرصہ سے میرے ساتھ رہنے کی وجہ سے میری ٹریننگ کے انداز کو سمجھتیں تھیں ، اس لئے وہ تو بہت جلد میرا آئیڈیا سمجھ گئیں ، لیکن رباب امتیاز اور غزالہ نے میری توقعات سے بڑھ کر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کا میں آج بھی متعرف ہوں ۔

میری اس ٹیم نے پنجاب یونیورسٹی کو انٹر یونیورسٹیز چیمپئن شپ جیت کر گولڈ میڈل دلوا دیا ۔ افسوس کہ ماہ پارہ اس چیمپئن شپ جیتنے کے بعد ایک روڈ حادثہ میں ہمیں ہمیشہ کے لئے الوداع کر گئی ۔ اﷲ اُسے جوارِ رحمت میں جگہ دے ،آمین۔ انٹرنیشنل کوچ رضی الدین نے بتایا کہ غیر معروف ضلع اٹک کے بعد مجھے غیر معروف تحصیل کہوٹہ میں کام کرنے کا بے حد مزا آیا یہ وہ وقت تھا جب راولپنڈی میں چند نام نہاد کوچز نے سرکاری پشت پناہی میں راولپنڈی کے کھلاڑیوں کو یرغمال بنایا ہوا تھا ۔ کھلاڑیوں کو مہنگی شٹل کاکس ، کھیلوں کا سامان بیچنے اور ٹریننگ فیس کی آڑ میں لوٹ مار کا دھندا عام تھا جو اب بھی ہے ، ایسے میں اچانک کہوٹہ سے میرے شاہینوں نے اپنی حیران کن کارکردگی سے پورے راولپنڈی ڈویژن پر سکتہ طاری کر دیا ۔ جی ہاں یہ وہ وقت تھا جب پنجاب کے چیف منسٹر میاں شہباز شریف نے پنجاب یوتھ فیسٹول کا آغاز کیا ۔ جس میں کہوٹہ سے جمشید طارق بھٹہ (کپتان) ، محمد عرفان ، علی لاروش خان اور عاکف خان نے 2012؁ء اور 2014؁ء میں راولپنڈی ڈویژن کے کھلاڑیوں پر مکمل کنڑول حاصل کرتے ہوئے اپنی حیران کن کارکردگی سے شائقین کے دل مو لیے بعد میں ان کھلاڑیوں نے پنجاب انٹر ڈویژن میں گوجرانوالہ اور لاہور جیسے مضبوط ڈویژن کو ناک و چنے چبوا دیے اور راولپنڈی ڈویژن کے لئے عرصہ 30سال کے بعد پہلی بار سلور میڈل حاصل کیا جو کہ ایک ریکارڈ رہے گا ۔ میں نے اﷲ تعالیٰ کی کرم نوازی پر شکر ادا کیا کہ خدا بزرگ و برتر نے میری عزت افزائی فرمائی ۔ 30سال قبل جب میں پاکستان میں تھا تو یہی سلور میڈل چک لالہ کلب کے میرے ہی زیر تربیت کھلاڑیوں امتیاز رفیق اور رئیس عباس نے یوتھ انٹر ڈویژن انڈر 16-کیٹیگری میں 1984؁ء میں حاصل کیا تھا ۔ واضح رہے راولپنڈی بیڈ منٹن کمیونٹی نے اپنی تاریخ میں کبھی کسی تحصیل کو اتنی بڑی کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے نہیں دیکھا اور اب یہ معجزہ دوبار ہ کب ہو گا کوئی پتہ نہیں کیونکہ اب کچھ کھلاڑی نیشنل لیول پر چلے گئے ہیں اور تحصیلیں ویران ہو گئی ںہیں ۔


2014؁ء کے بعد 2016؁ء میں تحصیل کہوٹہ کی بڑی پہچان انٹر نیشنل کھلاڑی محمد حمز ہ ہے جس نے انٹرنیشنل سکولز سپورٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام ورلڈ سکولز بیڈمنٹن چیمپئنشپ مالٹا میں پاکستان کی نمائندگی کی ، کہوٹہ ماڈل کالج فار بوائز KRLکا یہ ہونہار کھلاڑی محمد حمزہ 10thکلاس کا طالب علم سبزہلالی پرچم کے ساتھ تاریخ رقم کر گیا ، KMCکے سکول ٹیچراور سپورٹس PTIنے غریب کے اس بچے کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالیں حتی کہ بورڈ لیول بھی نہیں کھیلنے دیا اور افسر شاہی کے بچوں کو فیڈرل بورڈ کے سرٹیفیکیٹ بھی دلوائے، لیکن خدا نے عزت حمزہ کی جھولی میں ڈالی ۔ آج کوئی اس سے تاریخی ریکارڈ نہیں چھین سکتا ۔ میں KRLانتظامیہ کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے میری درخواست پر کاروائی کرتے ہوئے مورخہ 9جنوری 2017؁ء کو آفس آرڈر کے ذریعہ KMCکے ٹیچرز مافیا کو میری ٹریننگ میں مداخلت کرنے پر سختی سے پابند ی لگا دی لیکن اس وقت دیر ہو چکی تھی اب KMCیا تحصیل کہوٹہ کو کامیابیوں کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ اب وہاں ایسے حالات ہیں کہ کوئی کھلاڑی ضلع لیول بھی کراس نہ کر سکے گا۔ پاکستان سکولز سپورٹس فیڈریشن کی طرف سے پاکستان کی نمائندگی کرنے والے اپنے کھلاڑیوں محمد حمزہ ، احمر جلال ، عمر رانا اور محمد معین کے علاوہ فیڈرل بورڈ کے وقاص اسلم ، نعمان صابر اورشجاعت حسین کا شمار بھی اچھے سلجھے ہوئے کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جب کہ کلر سیداں کے ہندال بیگ ایک بہترین ابھرتے ہوئے کھلاڑی تھے خوش قسمتی سے وہ پاکستان آرمی میںکیڈٹ سلیکٹ ہو گئے۔ میں ان سب کے بہتر مستقبل کے لئے دعا گو ہوں ۔ اگرچہ قائد اعظم یونیورسٹی کی سلیکشن کمیٹی برائے ریکٹ گیمز اور کھلاڑیوں کے ساتھ گزشتہ 4سال سے منسلک ہوں لیکن میں ان پر خصوصی توجہ نہیں دے سکا جس کی بڑی وجہ یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم ہے جس کا سٹینڈر برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔ یہاں اساتذہ کرام تعلیم کے معیار میں کوئی کمپرومائز نہیں کرتے اس لئے عام طور پر اسی یونیورسٹی کے کھلاڑی کھیلوں سے دو ہو جاتے ہیں ۔ نعمان صابر ، فضل الرحمن اور آغا سعود اسی وجہ سے یونیورسٹی چھوڑ چکے ہیں ۔ عبدا ﷲ ، عون محمد اور محمد بلال جیسے اچھے کھلاڑی اب بھی یونیورسٹی میں موجود ہیں جبکہ نئے آنے والے کھلاڑیوں میں محمد حمزہ ، یاسر اور کمال بہترین کھلاڑی ہیں ۔ 2019؁ء میں قائد اعظم یونیورسٹی کو بیڈ منٹن میں اچھے لیول پر لے جانے کے لئے ایک مضبوط پروگرام بنائوں گا ۔ آخر میں معذور کھلاڑیوں کی خوشیوں میں شرکت کے جذبے میں میرے ساتھیوں شہباز احمد ، قمر رضا اور گونگے بہرے سکول اسلام آباد کے PTIذوالفقار علی خان نے خوب ساتھ دیا جو کہ یادگار رہے گا ۔ اس 3رکنی ٹیم کے ہمراہ رضی بیڈ منٹن اکیڈمی نے اشاروں کی زبان میں بیڈ منٹن ٹورنامنٹ کا آغاز کیا جو کہ اپنی نوعیت کا پاکستان میں پہلا تجربہ تھا اور کامیاب رہا ، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں اﷲ تعالیٰ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ معذور افراد کو اپنی خوشیوںمیں شریک کریں ، اس ضمن میں مجھے اپنی ٹیم پر فخر ہے کہ وہ اس نیک کام میں میری حوصلہ افزائی کرتی رہی۔ اس کے علاوہ پولیو سے متاثر اسپیشل افراد کی نیشنل چیمپئن شپ جیتنے کی یادگار لمحات میری زندگی کا قیمتی حصہ ہیں۔ 2019؁ء میں رضی اکیڈمی ان کھلاڑیو ں کے لئے مزید ٹورنامنٹس اور تربیتی پروگرام پیش کرے گی جس کے لئے اکیڈمی کی ویب سائٹ www.razibadmintonacademy.comاگلے سال جنوری میں عوام کے لئے کھول دی جائے گی ۔ میرا پیغام ہے بیڈمنٹن سیکھیں ، کھیلیں اور پاکستان کا نام روشن کریں ۔

error: Content is protected !!