چائناجتناآدھاکام بھی پاکستان میں ہواتوپاکستانی کھیلوں میںانقلاب آئےگا،رحم بی بی

پشاور(ملاقات؛غنی الرحمن)ہمسایہ ملک چائنانے اپنی بہترین پالیسی پر عملپیراہوکر جہاں کاروباری ،صحت اور دیگر شعبوں میں ترقی کے منازل طے کئے اور دنیاکے ترقیافتہ میں ممالک میں ایک منفرد مقام حاصل کیاہے اسی طرح کھیلوں کے میدانوں میں چائنانے بے مثال کامیابیاں حاصل کرکے خود ممتازبنایا ،کیونکہ چائنی حکومت نے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور انہیں معاشرے کاہمت افراد بنانے کیلئے جس قدر اقدامات اٹھائے ہیں انکی مثال ملک دنیا کے کسی بھی ملک مین نہیں ملتی ،وہاں سکول ،کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کیساتھ ساتھ کھیلوں اور جسمانی فٹنس کو بہت اہمیت دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج چائناکے کھلاڑی دنیائے کھیلوں پر حکمرانی کرکے لگے ہیں،اگر حکومت پاکستان نے چین بزنس اور کھیلوں کے شعبے میں انکی نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی اور بنیادی سہولیات مہیاکی گئی تو انشاء اللہ پاکستانی نوجوان کھلاڑی بھی دنیامیں سبزہلالی پرچم کو حقیقی معنوں میں ایک نمایاں مقام دلائینگے۔


ان خیالات کا ظہار فرنٹیئر کالج برائے خواتین کی ڈائریکٹر سپورٹس رحم بی بی نے چین کے دورے سے واپسی پر میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کیا،انہوںنے کہاکہ چائناحکومت کی دعوت پر سپورٹس منیجمنٹ ومینٹنینس ڈویلپمنٹ کورس کیلئے دنیاکے 15ممالک میں پاکستان وہ اور انکے ساتھ ڈی ایس اونوشہرہ جمشیدبلوچ اور آزاد کشمیر کی خاتون عالیہ نے شرکت کی،چائنامیں اپنے قیام کے دوران انہوں نے جو کچھ دیکھاگیاوہ حیران کن ہے جو بیان نہیں کرسکتی ،انہوں نے کہاکہ حقیقت میں چائنامیں مختلف شعبوں میں جس قدر ترقی کررکھی ہے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا،بلکہ کھیلوں کے شعبے میں تو ایسے کمال کردکھائے ہیں کہ لاجواب ہے۔ انہوں نے کہاکہ چائنامیں کھیل اور جسمانی فٹنس کو تعلیمی اداروں سمیت عام لوگوں کیلئے بھی لازمی قراردیدیاہے بلکہ سکول،کالج اور یونیورسٹیوں میں تو بہت ہی ضروری ہے ان ان اداروں کو اس الھاق نہیں دی جاتی جنکے پاس انڈور کھیلوں کیلئے بین الاقوامی معیار کے جمنازیم اور فٹ بال،ہاکی اور دیگر کھیلوں کیلئے علیحدہ گرائونڈ زدستیاب نہ ہوں،انہوںنے کہاکہ چائنی حکومت نے ایک ایسی بہترین پالیسی تشکیل دی ہے جس پر عمل پیراہوکر کھیلوں کی ترقی نے قومی فٹنس اور کھیلوں کی صنعت کی ترقی کو آگے بڑھایا ہے دو ہزار نو میں ،8 اگست کو “قومی فٹنس ڈے قرار دیا گیا،


اس دن کو چائنابھر میں ہر عمر کے مرد وخواتین اور بچے اور چائنابھر میں آجکل عوامی کھیلوں کے تین اعشاریہ ایک ملین سے زائد اسٹیڈیمز موجودہیں اور چالیس کروڑ سے زیادہ لوگروزانہ کی بنیادپر جسمانی ورزش میں حصہ لیتے ہیںجبکہ چین میں ہر سال بین الاقوامی کھیلوں کے دوسو سے زیادہ مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ،صرف 2017 میں کھیلوں کی صنعت کی مجموعی مالیت کا حجم 20 کھرب یوآن سے بھی زائد رہا, جو ملک کے جی ڈی پی کا ایک فیصد بنا ۔رحم بی بی نے بتایاکہ نئے چین کے قیام کے آغاز میں ہی چینی حکومت نے مسابقتی کھیلوں کو ترجیح دینے کی پالیسی مرتب کی، اسکے باوجود اس وقت ، فٹ بال ، باسکٹ بال ، ٹریک اینڈ فیلڈ اور دیگر کھیلوں میں چین کا معیار بلند نہیں تھا، حالیہ برسوں میں چین کھیلوں کے ترقیاتی ماڈل میں تبدیلی لایا اور قومی صحت سے متعلق عوامی سپورٹس کا تصور پیش کیاتاکہ زیادہ سے زیادہ عوام کھیلوں میں شریک ہو سکیں اور متعلقہ شعبوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو جائے، اسکے ساتھ ساتھ سپورٹس کے سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ کوشش کی جا رہی ہے تاکہ کھیلوں میں لوگوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
انکاکہناتھاکہ سال 2018 کے اختتام تک چینی کھلاڑیوں نے مختلف کھیلوں میں تین ہزار چار سو اٹھاون عالمی چمپئن شپ جیتیں ،اور ایک ہزار تین سو بتیس عالمی ریکارڈز قائم کئے تھے،ہمیںبتایاگیاکہ 2018 میں قومی جسمانی فٹنس پیمائش کے معیار تک پہنچنے والے چینی لوگوں کا تناسب 90 سے زیادہ ہے اوریہ اشارہ ہے کہ چین آہستہ آہستہ کھیل کے میدان میں بھی ایک نئی طاقت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں رحم بی بی کا کہناتھاکہ کورس کے دوران بیجنگ سمیت دو ران دیگر صوبوں کے دورے کئے جہاں پرتعلیمی اداروںاور دیگر صنعتوں سمیت کھیلوں کے سہولیات بھی دیکھنے کوملے ،جبکہ 2008اولمپک گیمز ویلج کا بھی دورہ کیایہ علاقہ اب بھی چائناآنے والے دنیابھر کے سیاحوں کے تفریح کا مرکزبناہواہے ،جہاں پر ہزاروں بلکہ لاکھوں سیاح گھومتے نظر آتے ہیں،اسکے علاوہ سپورٹس سائنس یونیورسٹی سمیت ایسے سکول وکالزج کا بھی دورہ کیاجہاں پر کھیلوں کے اس قدر سٹیڈیمز اور انڈور جمنازیم ہال موجود تھے ،جو ہمارے کسی بھی صوبے میں اس طرح کے سٹیڈیم نہیں ہے ،جبکہ چائنامیں ہونیوالے2020ء کے گیمز کیلئے ابھی سے تیاریاں شروع کر رکھی ہے ۔


رحم بی بی نے کہاکہ ہمیں جہاں بھی لے جایاگیاوہاں انکے صدیوں پراناکلچرل اور رسم ورواج کوزندہ رکھاہواہے اور کھیلو ں میں بھی اپنی ثقافت کو دنیاکو دکھایاجارہاہے،اس مین کوئی شک نہیں کہ دنیامیں مختلف شعبوں میں ترقی کے وہ منازل طے کئے ہیں کہ انسانی سوچ سے بالاتر ہے،وہاں لوگ گاڑیوں کے چلنے کے بجائے پیدل اور یا سائیکل پر جانے کو ترجیح دیتے ہیں وہاں بیماریاں نہ ہونے کے برابر ہے ہم نے دیکھاکہ وہاں کے ہسپتالوں ایسے پڑے ہیں جیسے خالی بلڈنگ ہوں،ہسپتالوں میں کہیں کہیں لوگ نظر آئینگے،انہوںنے کہاکہ اگر حکومت بھی دوست ملک چین کی طرح ایک ایک ایسی پالیسی بنائے ،جس سے ملک میں کاروباری،صحت ،تعلیم اور دیگر شعبوں کیساتھ کھیلوں کے شعبہ بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے ،بلکہ ملک میںپہلے صحت مند معاشرے تشکیل دینے کی اشدضرورت ہے اور اسکے لئے ملک بھر میں کھیلوں کاماحول پیداکرناہوگاور تعلیمی اداورں میں صبح اور چھٹی کے وقت پی ٹی اور کھیلوں کولازمی قراردیناچاہئے۔انہوںنے کہاکہ چائنامیں جو کچھ دیکھاہے وہ فرنٹیئر کالج میں وہ لاگو کرکے دکھائوں گی،تاکہ ملک بھر اور خصوصاًخیبر پختونخوامیں خواتین کھیلوں کو مزید فروغ دیاجاسکے۔

error: Content is protected !!