قذافی اسٹیڈیم میچ دیکھنے جاتاتوپولیس والے پٹائی کر کے بھگا دیتے تھے :عبدالقادر

انٹرویو:محمد قیصر چوہان
کہتے ہیں کہ سچ بڑا کڑوا ہوتا ہے، ایمانداری، خودداری اور انصاف کے راستوں کا انتخاب کرنے والوں کو قدم قدم پر مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اگر جذبے سچے ہوں تو اللہ بھی اپنے بندوں کیلئے آسانیاں پیدا کردیتا ہے، مٹی کو سونا بنا دیتااور کوئلے کی کان سے ہیرا نکال دیتا ہے۔ اس کی ایک مثال عبدالقادر کی شخصیت بھی ہے۔ 15 ستمبر 1955 کو لاہور شہر کے علاقے دھرم پورہ کی ایک مسجد کے امام حافظ سید قدیم کے گھر آنکھ کھولنے والا لڑکا دنیا کے نامی گرامی بیٹسمینوں کو تگنی کا ناچ نچا کر ’’میجک بوائے‘‘ کا خطاب پائے گا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا، مگر دھرمپورہ لاہور کی تنگ گلیوں سے کھیل کا آغاز کرنے والے منفرد سٹائل کے لیگ اسپنر نے سچی لگن سے عالمی سطح میں اپنی الگ پہچان بنائی، آج بھی کرکٹ کھیلنے والے ملکوں کے اسپن بائولرز انہیں اپنا آئیڈیل مانتے ہیں۔ اپنی ’’گگلی‘‘ سے کروڑوں شائقین کے دلوں میں بس جانے والے اس کرکٹر کو اللہ تعالیٰ نے 18 سالہ کیریئر کے دوران بہت نوازا، پرائیڈ آف پرفارمنس، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے ساتھ گوروں نے بھی کئی تنظیموں کی لائف ممبر شپ دی، سنڈے ٹائمز نے ایک ہزار سالہ کھیلوں کی تاریخ میں سے 100 عظیم کھلاڑیوں کے نام منتخب کئے تو ان کا چوتھے نمبر پر رکھا۔ عبدالقادر نے کم عمری میںہی گیند پر مکمل کنٹرول ،لیگ بریک، گگلی، فلپر، ٹاپ اسپن سمیت کریز کے استعمال پر ہر لحاظ سے عبور حاصل کر لیا تھا اورپھر اپنی انہی مثالی خوبیوں کے ساتھ وہ جس میدان میں بھی اترے کامیابیوں نے ان کے قدم چومے۔ دنیا بھر میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔یہی انفرادیت عبدالقادر کی عظمت کا ثبوت ہے جس نے انہیں ایک عظیم اور میچ ونر لیگ اسپنر کی حیثیت سے لازوال شہرت بخشی اور وہ کرکٹ کی دنیا میں اس منزل پر پہنچے جہاں پر انہیں یقینی طور پر ناقابل فراموش اور مثالی کہا جا سکتا ہے۔انہوں نے لیگ اسپن بائولنگ کے فن کو عروج بھی بخشا اور اس قدر اعلیٰ مہارت کا مظاہرہ کیا جو آنے والے اسپنرز کیلئے مثال بنا۔ وہ اپنے فن کے بے تاج بادشاہ تھے جن کی جادوگری کے سامنے بڑے بڑے نامور بیٹسمین بھی بے بس نظر آئے۔ عبدالقادر نے کرکٹ کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے اور ان دنوں بھی وہ عبدالقادر کرکٹ اکیڈمی کے نام سے ایک ادارہ چلا رہے ہیں اور اپنا تجربہ نوجوان نسل تک منتقل کر رہے ہیں۔صداقت اوردیانت کے اجالوں میں لپٹی شخصیت کے مالک عبدالقادر شروع دن سے ہی خوب تر سے خوب تر کی تلاش میں سر گرداں رہے۔ وہ ایک ملنسار، خلیق اور نفیس انسان ہیں۔ اس مرد جہد آزمانے عزم و یقین کو اپنا زادراہ بنا کر اپنے سفر زندگی کا آغاز کیا اور آج اپنی انتھک محنت، جذبہ حب الوطنی، لگن اور جنون کی بدولت دنیائے کرکٹ کے عظیم لیگ اسپنر کی حیثیت سے اپنی علیحدہ پہچان رکھتے ہیں خاندانی، شرافت، وضعداری کی وجہ سے بھی ان کی مقبولیت عام ہے۔ نفاست لباس سے نفاست کردار تک، لطافت بیان سے لطافت زبان تک وہ خود کوتوجہ اور محبت کا مستحق بنا لیتے ہیں۔ کاروبار حیات اور کھیلوں کی دنیا میں مستقل مزاجی سے مشغول اس پر جوش اور دوسروں کے درد آشنا،غم خوار کا ہر عمل اور ہر فعل ضمیر کی آواز کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ حق گوئی اور بے باکی ان کی نمایاں صفت ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے 2009 ء میں عبدالقادر کو قومی سلیکشن کمیٹی کا چیئر مین بنایا تو انہوں نے سلیکشن کمیٹی کے دیگر ممبران کے ساتھ مل کر میرٹ پر انگلینڈ میں کھیلے جانے والے ٹی 20 ورلڈ کپ کیلئے پاکستان کی ٹی 20 کرکٹ ٹیم کا انتخاب کیا جس نے یونس خان کی قیادت میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹی 20ورلڈ کپ جیت کر ملک و قوم کا نام عالمی سطح پر روشن کیاتھا۔ نمائندہ ’’ ‘‘ نے گزشتہ دنوں دھرم پورہ میں عبدالقادر کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی جس میںآل ٹائم گریٹ جادو گر لیگ اسپنر اور عظیم انسان سے جو گفت و شنید ہوئی وہ قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور قومی سلیکشن کمیٹی کے سابق چیئرمین عبدالقادر نے بتایا کہ میرے آبائو اجداد کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کے خوبصورت شہر پشاور کے ضلع مردان کی تحصیل صوابی سے ہے۔ میرے والد کا نام حافظ سید قدیم جبکہ دادا کا نام سید ابراہیم تھا۔ میرے والد میری پیدائش سے کافی پہلے صوابی سے لاہور آکر دھرم پورہ کے علاقے میں آباد ہوگئے تھے۔ دھرم پورہ کا علاقہ اس وقت غریب لوگوں کی بستی تھی اور یہ محلہ زمان پارک جہاں سے گریٹ عمران خان، گریٹ ماجد خان جیسے کرکٹر پیدا ہوئے ہیں سے تقریباً پانچ منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔ نہر کی ایک طرف غریبوں کی بستی دھرم پورہ دوسری جانب امیروں کا علاقہ زمان پارک ہے۔میری پیدائش 15ستمبر 1955کو غریبوں کی بستی دھرم پورہ میں ایک امام مسجد حافظ سید قدیم کے ہاں ہوئی۔ میں نے غربت میں آنکھ کھولی، لیکن مجھے فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے پیارے رسولؐ کی امت میں سے پید اکیا اور پھر میرے والد حافظ قرآن اور امام مسجد تھے۔ لالابک ڈپو کے ساتھ واقعہ چھوٹا سا محلہ دھرم پورہ میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس کے امام مسجد میرے والد تھے۔ وہ اس مسجد میں نماز بھی پڑھاتے اور بچوں کو قرآن پاک بھی پڑھایا کرتے تھے ہماری رہائش مسجد کے ایک ڈیڑھ مرلے کے مکان میں تھی۔ میرے والد صاحب ایک شریف النفس، ایماندار اور خود دار آدمی تھے، میرا بچپن بھی علاقے کے دیگر غریب بچوں کی طرح غربت میں گزرا۔بچپن میں غربت اور فاقے دیکھے۔ جہاں روٹی نہ ہو وہاں تعلیم، تہذیب اور اخلاقیات کہاں سے آئے لیکن اتنی غربت کے باوجود ہمارے گھر میں ایمان کی دولت تھی۔ میرے والد بہت مذہبی تھے۔ وہ خدا کا شکر بجالاتے، راتوں کو اٹھ اٹھ کر عبادت کرتے، لالچ و طمع سے دور رہتے جو مل جاتا اس پر سجدہ شکر بجا لاتے۔ محلے کے ٹاٹ والے سکول میں جاتا تھا اور محلے میں کھیلی جانے والی گیمز کا ماہر تھا۔ ’’پٹھو گول گرم، باندر کلا‘‘سٹاپو اور گولیاں کھیلنے میں بہت مہارت حاصل تھی۔ سارا دن گلی میں کھیلتا اور شام کو گھر آکر سوجاتا لیکن آج یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں ان دنوں بھی ان کھیلوں کا چمپئن تھا۔ میں زندگی بھر کسی کھلونے سے نہیں کھیلا اور نہ ہی میں نے کبھی سالگرہ وغیرہ منائی۔کرکٹ کے بارے میں مجھے تو کیا میرے دادا کو بھی نہیں پتہ تھا۔ بلکہ میرے خاندان کے کسی بھی فرد کو کرکٹ کے کھیل بارے کوئی معلومات نہیں تھیں۔ میرے والد کو کرکٹ کے کھیل سے سخت نفرت تھی۔ بچپن میں قران پاک کی تلاوت باقاعدگی سے کیا کرتا تھا اور پانچوں وقت کی نماز باجماعت پڑھتا تھا۔ بچپن میں کبھی کرکٹ نہیں کھیلی اور نہ ہی اس بارے میں کچھ پتہ تھا۔ بچپن میں کافی شرارتی تھا۔ ہمارے محلے میں ایک شرارتی پارٹی بنی ہوئی تھی جس کا میں کپتان ہوتا تھا۔ ہم تانگے کی سیر کے بڑے شوقین تھے۔ دھرم پورہ مین بازار میں تانگے والے کھڑے ہوتے تھے۔ محلے میں سے کسی فیملی نے بھی کہیں جانا ہوتا تھا تو وہ تانگے والے کو بلا لیتے تھے۔ مین بازار دھرم پورہ سے ہمارے محلے کا چند قدموں کا فاصلہ تھا۔ ہماری شرارتی پارٹی میں شامل بچے اکٹھے ہو کر تانگے والے کے پاس جاتے اور اسے اپنے محلے میں لے آتے ہم تانگے والے کو لالہ بک ڈپو کے ساتھ گلی کے اندر تک لے آتے تھے اور پھر اس کو وہاں ٹھہرنے کا کہتے تاکہ گھر والوں کو بلا لیں یوں ہم تانگے کی سیر کرنے کے بعد گلیوں سے اپنے گھروں کو بھاگ جایا کرتے تھے۔ تانگے والا کافی دیر تک کھڑا رہنے کے بعد واپس چلا جاتا تھا۔ ہمیں یہ پتہ ہوتا تھا کہ ہم نے کل کس تانگے والے کو بلایا تھا۔ ہم اس طرح تقریباً سبھی ٹانگوں پر سیر کر چکے تھے۔ تانگے والے ہماری اس حرکت سے سخت نالاں تھے ایک دن ان کوچوانوں نے میٹنگ کی کہ اس شرارتی پارٹی کو پکڑ کر مزہ چکھانا ہے۔ ہم نے کچھ دنوں کے بعد ایک تانگے والے سے محلے کے اندر چلنے کو کہا تو اس نے بڑے پیار سے تمام بچوں کو بٹھا لیا۔ ہم بڑے مزے سے تانگے پر سیر کر رہے تھے کہ اچانک ہی کوچوان نے تانگے کو روکا تو ہم نے فوری طور پرتانگے سے چھلانگیں لگا دیں اور محلے کی گلیوں میں بھاگ نکلے ہم نے دیکھا کہ چار پانچ کوچوانوں نے ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑے ہوئے تھے اور وہ ہمیں خوب گالیاں دے رہے تھے۔ تب جا کر ہمیں یقین ہوا کہ اگر ہم بروقت نہیں بھاگتے تو آج خوب پٹائی ہوتی۔ اس کے بعد ہم دوبارہ تانگے کی سیر کرنے کے لیے نہیں گئے۔پھر ہماری شرارتی پارٹی کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں ہم نے نئی شرارت کرنے کی ٹھانی۔ ہم اپنے محلے کی ایک گلی کا انتخاب کرتے، پھر اس گلی کے تمام گھروں کے دروازوں کو باہر سے کنڈی لگا دیتے اور پھر ہم تمام بچے ایک ایک کر کے تمام گھروں کے دروازے زور زور سے کھٹکھٹاتے جاتے اور آگے بھاگتے جاتے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ ہمارے محلے میں ایک نہایت ہی شریف اور ایماندار بزرگ اللہ دتہ صاحب رہتے تھے ہم گھروں کی کنڈیاں لگا کر باہر سے زور زور سے دروازے کھٹکھٹا رہے تھے کہ اچانک اللہ دتہ صاحب کے گھر سے ان کی بیوی کی آواز آئی جو ہمیں گالیاں دے رہی تھی کہ اتنے میں اللہ دتہ صاحب نے اپنی بیوی کو چپ رہنے کو کہا اور باآواز بلند کہا ’’شاباش حرام زادوںشاباش‘‘ ۔ ہم گالیاں کھا کر بھی باز نہ آئے تو پھر محلے داروں نے ایک میٹنگ کی کہ بھئی یہ شرارتی پارٹی رات کو اتنے بجے تنگ کرتی ہے ان کو پکڑا جائے۔ ہمارا ایک دوست ہوتا تھا ان کے گھر کی دیوار کے ساتھ ایک امرود کا پیڑتھا یہ دیوار تقریباً پانچ فٹ اونچی ہو تھی اس دوست کے والد صاحب اس دیوار کے ساتھ اندھیرے میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ جیسے ہی ہم نے گلی میں سب گھروں کی باہر سے کنڈیاں لگائیں اور دروازے کھٹکھٹاتے ہوئے آگے بھاگے کہ دیوار کے قریب چھپا بیٹھا شخص ہمیں پکڑنے کیلئے لپکا کہ ہم بھاگ نکلے۔ اس دن اگر پکڑے جاتے تو خوب پٹائی ہونی تھی۔ بچپن میں بڑی شرارتیں کیں لیکن کبھی پکڑے نہیں گئے۔ اس لیے پٹائی سے بچے رہے۔میں شرارتوں سے بہت جلد باز آ گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے محلے داروں نے میرے والد صاحب کو میری شرارتوں کی شکایت لگا دی تھی۔ چونکہ میرے والد صاحب امام مسجد تھے ان کی محلے میں بڑی عزت تھی اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میری وجہ سے ان کی عزت پر کوئی حرف آئے۔ یوں میں نے شرارتی پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی۔ حالانکہ میرا دل شرارتیں کرنے کو بہت چاہتا تھا۔ شرارتی پارٹی چھوڑنے پر پارٹی میں موجود تمام دوست مجھ سے سخت ناراض ہو گئے کیونکہ میں اس شرارتی پارٹی کا کپتان تھا۔ مجھے بچپن میں فلمیں وغیرہ دیکھنے کا بہت شوق ہوتا تھا لیکن غربت کی وجہ سے میری جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہوتی تھی اس لیے اس شوق کی تکمیل بڑی مشکل تھی۔ میرا ایک بہترین دوست جس کا نام سلیم تھاان کا اپنا ہوٹل تھا وہ میرا بڑا یار تھا وہ اپنے ہوٹل کے غلے سے پیسے نکالتا اور مجھے فلمیں وغیر دکھایا کرتا تھا۔ زندگی میں پہلی بار سنیما جا کر جو فلم دیکھی تھی اس کا نام ’’ماں پتر‘‘ تھا۔ اس فلم کے مرکزی کرداروں میں سدھیر اور فردوس شامل تھے۔ مجھے فردوس کی خوبصورتی اور اداکاری بڑی پسند تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں آج تک فردوس جیسی خوبصورت عورت نہیں دیکھی۔

بچپن میں انفنٹری روڑ پر ایک لومڑی سکول تھا۔ اس میں پڑھا کرتا تھا۔ تھوڑا سا بڑا ہوا تو عارف ہائی سکول میں داخل ہو گیا۔ اس سکول میں صدیق چنے والا بڑا مشہور تھا میں آدھی چھٹی کے وقت اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر صدیق سے نان چھولے کھایا کرتا تھا۔ میں نے پوری دنیا گھومی ہے طرح طرح کے کھانے کھائے ہیں لیکن آج تک صدیق کے چنے جیسے مزے دارے کوئی دوسرے نہیں کھائے۔ صدیق ایک ایماندار شخص تھا اللہ تعالیٰ کی ذات نے اس کے ہاتھوں میں بڑی برکت اور ذائقہ دیا ہوا تھا۔ وہ صبح سکول لگنے کے وقت ریڑھی پر نان چھولے لے کر آتا تھا ہم دوپہر میں آدھی چھٹی کے وقت اس سے نان چھولے کھاتے تھے۔ اتنی دیر گزرنے کے باوجود نان چنے بالکل تازہ ہوتے تھے۔ آج اگر آپ کسی تندور سے نان یا روٹی لے کر آئیں تو وہ پانچ منٹ کے بعد کھانے کے قابل نہیں رہتی۔ وجہ صرف ایمانداری ہے جو اب کے لوگوں میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ میں پڑھائی میں بالکل بھی اچھا نہیں تھا اور نہ ہی مجھے پڑھنے کا کوئی شوق تھا۔ ویسے بھی غربت کی وجہ سے گھر والے کہتے تھے کہ پڑھائی لکھائی چھوڑ کر دال روٹی کی فکر کرو۔سکول میں استاد کا بڑا احترام کرتا تھا کیونکہ مجھے استاد کے درجے کا پتہ تھا۔ عارف ہائی سکول چھوڑ کر میں زبیری ہائی سکول میں داخل ہو گیا۔ پھر میں اقبال ہائی سکول گڑھی شاہو میں داخل ہو گیا۔ لیکن گھر کے حالات اتنے خراب تھے کہ میں سکول میں پڑھ نہیں سکتا تھا ویسے گھر والے بھی مجھے پڑھانا نہیں چاہتے تھے۔ میں پڑھنے کے بجائے کوئی چھوٹی موٹی نوکری تلاش کر رہا تھا۔ بچپن سے نکل کر میں لڑکپن میں قدم رکھ چکا تھا اس دوران مجھے کرکٹ کھیلنے کا شوق بھی ہو گیا تھا۔میں لالہ بک ڈپو کے ساتھ لکڑیوں کا ٹال تھا وہاں سے دیگر ہم عمر لڑکوں کے ساتھ مل کر لکڑی چوری کرتے اور اس کو بطور بیٹ استعمال کرتے ۔چونکہ اس دور میں ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے اس لیے ہم شاپنگ بیگ اکٹھے کر کے اس میں کپڑوں کی کتریں بھر کر اس سے گیند بنا کر محلے کی گلیوں میں کرکٹ کھیلتے تھے۔ میں لالہ یونس کا بڑا مشکور ہوں انہوں نے مجھے میدان میں کھیلتے دیکھا تو کہنے لگے کہ تم تو بہت اچھا کھیلتے ہو ان دنوں مجھے بیٹنگ کرنے کا جنون تھا۔ لالا یونس نے پوچھا کہ بیٹا کیا تم پڑھتے بھی ہو تو میں نے کہا جی میں سکول پڑھتا ہوں۔ اتنے میں کہنے لگے کہ تم پرائیویٹ بھی پڑھا کرو تو میں نے ان کو بتایا کہ میرے گھر کے حالات اچھے نہیں ہیں میں تو سکول بڑی مشکل سے پڑھنے جاتا ہوں۔ میری باتیں سننے کے بعد لالا یونس نے کہا کہ بیٹا تم میرے گھر پڑھنے آ جایا کرو میں تمہیں فری پڑھائوں گا۔ کسی حد تک لڑاکا بھی تھا۔یہ وہ دور تھا جب دوستی ایک اثاثہ ہوتا تھا اور دوستی کے مضبوط رشتے ہوا کرتے تھے۔ لوگ تن من دھن سب یاروں پر لٹا دیا کرتے تھے۔ منافقت اور ریا کاری کم تھی۔ دوستی کے موضوع پر فلمیں بنتی تھیں۔اسی طرح میں بھی یاروں کا یار تھا۔ ایک دن میں گلی میں شیشے کی گولیاں کھیل رہا تھا کہ میرے ایک دوست نے مجھے کہا کہ یار ہماری ٹیم میں ایک کھلاڑی کم ہے چلو آئو کرکٹ کھیلنے چلتے ہیں آپ ہماری طرف سے کھیلیں۔ میں چپل گھسیٹتا اس کے ساتھ چل پڑامیں نے کبھی کرکٹ میچ نہیں کھیلا تھالیکن دوست کا حکم تھا اس کو انکار نہیں کر سکا۔مجھے اوپننگ کیلئے بھیج دیا گیا اور بنیادی اصول واضح کر دیئے گئے کہ اگر گیند وکٹوں کو لگا تو آئوٹ، کیچ ہوا تو بھی آئوٹ اور اگر ہٹ لگی تو بھاگ کر رنز بنانے ہیں۔ میںپہلی ہی گیند پر بولڈ ہو گیا، باہر آنے لگا تو آواز آئی نہیں… نہیں یہ تو ٹرائل بال تھا، آپ کھیلیں۔ میں پھر کریز پر کھڑا ہو گیا۔اگلی گیند پر پھر بولڈ ہو گیا تو کھڑا رہا کہ شاید یہ بھی کوئی ایسی ہی گیند ہو مگر مجھے باہر بھیج دیا گیا۔ میچ بہرحال ہم جیت گئے میں سارا دن صفر پر آئوٹ ہونے پر شرمندہ سا رہا۔ شام کو ساری ٹیم مسجد کے باہر پڑے پلنگ پر اکٹھی ہوتی تھی، میں بھی چلا گیا جو بھی نمازی آتا یہی پوچھتا ’’لڑکو! آج کے میچ کا کیا بنا۔ جب جیت کا بتاتے تو نمازی خوش ہو کر تعریف کرتے۔ میں کونے میں کھڑا سارا منظر دیکھتا رہا اور یہ سوچتا رہا کہ یہ ایک اچھا کھیل ہے لہٰذا مجھے اسے کھیلنا چاہیے۔ پھر ہمارے محلے کی ٹیم میں ایک کھلاڑی عبدالستار ہوا کرتا تھا وہ ہیرو ہوتا تھا۔ اس کی کارکردگی کی وجہ سے ہر کوئی اس کے گیت گاتا تھا۔ یہی ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ میں نے گلی کے سارے کھیل چھوڑے اور اگلے دن گرائونڈ میں نیٹ سیشن کو جوائن کر لیا۔ کچھ ہی دنوں میں میری خدا داد صلاحیتیں سامنے آمنے لگیں۔ میں زور دار بلے بازی کرنے لگا اور ساتھ ہی بائولنگ بھی یوںمجھے ٹیم میں شامل کر لیا گیا لیکن دھاک عبدالستار کی ہی تھی۔ ایک مرتبہ اتوار کو میچ نہ تھا۔ مجھے عبدالستار کہنے لگے چلو پی سی گرائونڈ چلتے ہیں۔ پی سی گرائونڈ فورٹریس سٹیڈیم کی جگہ ہوا کرتی تھی اور بہت بڑی گرائونڈ تھی جہاں درجنوں ٹیمیں کرکٹ کھیلنے آتیں۔ ہم وہاں پہنچے تو ہر ٹیم عبدالستار کو اپنی جانب سے کھلانے پر اصرار کرتی اور مجھے ہر کوئی مسترد کر دیتا۔ اس واقعہ نے میری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ میں نے نیٹ پر محنت کی انتہا کر دی۔ پھر وقت بدلا اور جوہر سامنے آنے لگ گئے۔ میری دھواں دار بلے بازی اور گھومتی گیندوں کے چرچے ہونے لگے۔ کچھ ہی ماہ بعد ہم دوبارہ پی سی گرائونڈ گئے تو ہر ٹیم عبدالقادر کو کھلانے پر اصرار کرتی نظر آئی۔ میں علاقائی کرکٹ میں اپنا نام بنا چکا تھا۔ جب میں لوکل سطح پر کھیل رہا تھا تب اس قدر آگے آنے کا اندازہ ہی نہیں تھا میں تو صرف عبدالستار کو پیچھے چھوڑنے کی دھن میں آگے آیا تھا، لیکن کھیلتے کھیلتے عبدالقادر پی سی گرائونڈ کا ہیرو بن گیا تھا۔ ان دنوں ہمارے علاقے کی معروف کلب دھرمپورہ جم خانہ ہوا کرتی تھی۔ ایک شام اس جم خانہ کلب کے کچھ عہدیدار میرے گھر پر آئے اور مجھے اپنے کلب کی طرف سے کھیلنے کی پیشکش کی اور ساتھ یہ آفر بھی تھی کہ آپ سے چندہ نہیں لیا جائے گا۔ میں نے یہ کلب جوائن کر لیا۔ یقین کریں کہ ہر شام نیٹ اپنے کندھوں پر اٹھا کر گرائونڈ لے جاتا۔ اسے نصب کرتا اور پھر مسجد سے پانی کی بالٹیاں بھر بھر کر پانی کا چھڑکائو کیا کرتاتھا۔ تمام کھلاڑیوں کی آمد سے قبل نیٹ تیار کرنا میری ذمہ داری تھی۔مجھ پر والدین کی طرف سے کوئی پریشر نہیں تھا اس لیے میں دن بھر محلے کی گلیوں اور قریبی میدان میں جا کر کرکٹ کھیلتا اور شام کے وقت لالہ یونس کے گھر پڑھنے چلا جاتا۔ یوں میں پرائیویٹ تعلیم حاصل کرنے لگا اور میں نے میٹرک کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ لڑکپن کی عمر میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے میچز دیکھنے کا بڑا شوقین تھا۔ میں نے حبیب بنک کی ٹیم میں آنے سے قبل قذافی اسٹیڈیم میں ہونے والے پاکستان کرکٹ ٹیم کے تقریباً تمام میچز ہی دیکھے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے میچز دیکھنے کے لیے دھرم پورہ سے پیدل قذافی اسٹیڈیم جایا کرتا تھا کیونکہ میرے پاس تو پیسے نہیں ہوتے تھے۔ جب اسٹیڈیم پہنچتا تو ٹکٹ پاس نہ ہونے کی وجہ سے پولیس والے اندر داخل نہیں ہونے دیتے تھے۔ پولیس والے پٹائی کر کے بھگا دیتے تھے۔ میں اُس وقت قذافی اسٹیڈیم کے جس گیٹ سے دھکے کھا کر پاکستان کرکٹ ٹیم کے میچ دیکھتا تھا آج قذافی اسٹیڈیم کے اسی گیٹ پر میرے نام کا انکلوژر بنا ہواہے۔ جب مجھے پولیس والے مار کر بھگا دیتے تھے تو میں تھوڑا دور جا کر کھڑا ہو جاتا تھا کیونکہ مجھے علم ہوتا تھا کہ 11بجے کے قریب ایف سی کالج کے لڑکے آئیں گے تو میں ان کے ساتھ اندر گھس جائوں گا۔ یوں جب کالج کے لڑکے آتے تو میں بھی ان کے ساتھ لائن میں لگ جاتا پھر پیچھے سے کچھ لڑکے دھکے مارتے تو اس طرح ایک دھکے میں بغیر ٹکٹ کے اسٹیڈیم کے اندر داخل ہو جاتے۔اس طرح میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے میچز دیکھتا تھا۔میٹر ک پاس کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجھے گورنمنٹ کالج میں داخلہ مل گیا تو میں نے اپنے کالج کی طرف سے کھیلنا شروع کر دیاجب میں نے کرکٹ کھیلنا شروع کی تو میرے پاس کرکٹ کھیلنے کیلئے کٹ نہیں تھی پھر ایک مہربان نے مجھے لنڈا بازار سے ٹرائوزر خرید کر دیا تو میں بہت زیادہ خوش ہوا۔ کیونکہ اب میں بھی دوسرے لڑکوں کی طرح گرائونڈ میں اتر کر کرکٹ کھیل سکتا تھا۔ چونکہ میرے والد کو کرکٹ سے نفرت تھی اس لیے میں والد کے خوف سے ٹرائوزر کے اوپر شلوار پہن کر کرکٹ کھیلنے جاتا تھا۔رات کوسوتے وقت گیند میرے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ میں صبح کالج پڑھنے جاتا، واپس آکر کلب کرکٹ کھیلتا پھر شام کو دھرم پورہ سے رننگ کرتے ہوئے قذافی اسٹیڈیم اور وہاں سے اچھرہ جاتا پھر واپس رننگ کرتا ہوا دھرم پورہ آتا تھا۔ صبح سویرے اٹھ کر نماز فجرپڑھنے کے بعدمیں گالف کلب میں جا کر ورزش کرتا تھا۔ میٹرک کیا تو کسی نے کہا کہ گورنمنٹ کالج میں سپورٹس کی بنیاد پر داخلہ لے لو۔ یہاں بھی خدا نے کرشمہ دکھایا۔ ڈیڑھ ہزار کھلاڑیوں میں سے صرف پانچ کھلاڑیوں کا انتخاب ہوا جس میں میرا نام بھی شامل تھا۔ دھرم پورہ جم خانہ کرکٹ کلب سے گورنمنٹ کالج کا سفر ایک حسین خواب تھا، جو پورا ہوا۔ میری شہرت گورنمنٹ کالج کی اوول گرائونڈ سے باہر نکلی تو سب سے پہلی نوکری واپڈا نے دی۔ مجھے یاد ہے کہ 230 روپے ماہانہ تنخواہ مقرر ہوئی۔ پھر کچھ عرصہ بعد حبیب بینک نے 750 روپے ماہانہ کی ملازمت کی پیشکش کی تو لگا گویا میں امیر ہو گیا ہوں۔ حبیب بینک میں اس وقت معروف کھلاڑی کھیلتے تھے ان میں مدثر نذر، آغا زاہد، اظہر خان، سلطان رانا اور میانداد جیسے نام تھے۔ بینک کی طرف سے پہلا میچ کوئٹہ میں کھیلا۔ ٹیم کوئٹہ پہنچی تو اسٹیشن پر ایک سینئر کھلاڑی نے بڑی حقارت سے مجھے حکم دیا کہ اس کا سامان ہوٹل پہنچائوں۔ میری تربیت ایسی تھی کہ بد اخلاقی کو پاس نہیں پھٹکنے دیتا تھا۔ خیر میں نے اس کا سامان ہوٹل پہنچایا۔شام کو سولہ کھلاڑیوں کی فہرست لگی تو اس میں میرا نام نہ تھا۔ میں بہت اداس ہوا۔ بینک کے کپتان نے مجھے اداس پا کر پوچھا کیا بات ہے کیوں سنجیدہ ہو۔ میں نے عرض کی کپتان صاحب مجھے ایک موقع دیں میں آپ کومایوس نہیں کروں گا۔ کپتان نے ایک لمحہ سوچا اور بغیر جواب دیئے چلا گیا۔ فائنل ٹیم کی فہرست صبح آویزاں ہونا تھی۔ ہمارا میچ نیشنل بینک سے تھا اور نیشنل بینک اپنے وقت کی بڑی ٹیم تھی۔ تسلیم عارف اور افضال احمد جیسے کھلاڑی اوپنر تھے۔ صبح بیدار ہوا، نماز پڑھی، راہداری میں لگی ٹیم کی فہرست پر نظر ڈالی تو میرا نام شامل تھا۔ یہ بھی میرے خدا کا معجزہ تھا کہ اس نے کپتان کے دل میں میرے انتخاب کی خواہش ڈال دی۔ ہماری پوری ٹیم 95 رنز پر آئوٹ ہو گئی جس میں میرے 48 رنز شامل تھے۔ بائولنگ کی باری آئی تو میچ ختم ہونے کو تھا کہ آخری اوور میں مجھے گیند دی گئی۔ میں نے چھ گیند کروائیں۔ دونوں ٹیموں کے کھلاڑی ششدر رہ گئے کہ ایک نو عمر نے وکٹ پر افضال احمد جیسے کھلاڑی کو گھما کر رکھ دیا ہے۔ میں نے بہت سمجھداری سے گیند کی اور افضال احمد کو آئوٹ کرنے میں کامیاب رہا۔ سکندر علی بھٹو ٹورنامنٹ کا ایک میچ کھیلنے کو ملا تو میں نے چھ کھلاڑی آئوٹ کئے، اس روزاخبارات میں میری تصویر چھپی تو مجھے لگا جیسے میں ہوائوں میں اڑ رہا ہوں۔ یہ گریڈ ٹو کا میچ تھا اور اس وقت ڈان کے معروف سپورٹس صحافی حلیم احمد کا یہ جملہ آج بھی مجھے یاد ہے کہ عبدالقادر کو پولیس بھی ٹیسٹ کھیلنے سے نہیں روک سکتی۔ پھر مجھے بہاولپور کی ٹیم کے خلاف پہلا فرسٹ کلاس میچ کھیلنے کا موقع ملا۔ بہاولپور جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف اپنے پہلے فرسٹ کلاس میں 29 رنز بنائے جبکہ پوری ٹیم 87 رنز پر آئوٹ ہوئی۔ 17 رنز دے کر چھ کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ اس طرح یہ میرا فرسٹ کلاس ڈیبیو تھا۔ یہ خدا کا ایک اور معجزہ نہیں تو پھر اور کیا ہے کہ میں پہلے پاکستان ٹیم کا کپتان بنا اور بعد میں ایل سی سی اے کی قیادت کی۔کالج کی طرف سے کھیلتے ہوئے میری بائولنگ اور بیٹنگ دونوں میں نکھار پیدا ہو گیا۔ میں نے اکثر لوگوں سے سن رکھا تھا کہ جو کرکٹر انٹر کالجیٹ کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میں اچھا پرفارم کرتا ہے وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی طرف سے ضرور کھیلتا ہے۔ یہ باتیں سننے کے بعد میری شدید خواہش تھی کہ میں بھی انٹر کالجیٹ کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میں یادگار پرفارم کروں۔ انٹرکالجیٹ کرکٹ ٹورنامنٹ شروع ہوا تو میں نے اس ٹورنامنٹ میں اپنی شاندار بیٹنگ اور بائولنگ کے ذریعے گورنمنٹ کالج کی ٹیم کو فائنل میں پہنچایا۔ فائنل میچ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے مابین کھیلا گیا تھا۔ میں نے اس فائنل میچ میں 145رنز بنائے تھے جبکہ 7وکٹیں بھی حاصل کیں تھیں میری اس پرفارمنس سے گورنمنٹ کالج نے شاندار فتح حاصل کی تھی۔ گورنمنٹ کالج میں ایک رول تھا کہ جو لڑکا بھی کسی میچ میں سنچری اسکور کرتا اس کو بیٹ تحفے میں دیا جاتا تھا۔ جب میں نے فائنل میں شاندار سنچری بنائی تو مجھے بھی بیٹ تحفے میں ملا۔ اس شاندار کارکردگی نے میری قسمت بدل کر رکھ دی کیونکہ مجھے حبیب بنک کی طرف سے کھیلنے اور نوکری کی آفر ہو گی جسے میں نے فوری قبول کر لیا۔1977میں جب پہلی مرتبہ پاکستان ٹیم میں نام آیا تو بہت خوش تھا۔ میں نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں انگلینڈ کی مضبوط ٹیم کے خلاف کھیلا تھا۔ ٹیسٹ کیرئیر کی پہلی گیند جیف بائیکاٹ کو کی تھی جبکہ باب ولس کو آئوٹ کر کے پہلی وکٹ حاصل کی۔ میں نے پورے ٹیسٹ میں میں 40 اوورزکئے تھے جن میں مجھے 79رنز پڑے تھے بائولنگ تو میں نے اچھی کی تھی لیکن بد قسمتی سے وکٹ صرف ایک ہی مل سکی تھی۔ میں نے مائیک بریلی، ڈیوڈگاور، جیف بائیکاٹ اور مائیک گیٹنگ جیسے نامور بلے بازوں کو بڑی اچھی بائولنگ کی تھی۔ جب مجھے میچ میں صرف ایک وکٹ ملی تو میں نے سوچا کہ اب میری کرکٹ ختم ہو گئی ہے۔ لہٰذا میں نے PC ہوٹل کے اپنے کمرے سے بیگ اُٹھایا اور نیچے آنے کیلئے لفٹ کا بٹن دبایا کہ اتنے میں لفٹ کھلی اور اندر سے پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان وسیم باری صاحب نکلے اور مجھے دیکھ کر بولے کیا تم خوش ہو میں نے جواب دیا کہ خوش بھی ہوں اورنہیں بھی تو انہوں نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے میں نے کہا کہ اس لئے کہ میں میچ میں زیادہ اچھی بائولنگ نہ کر سکا۔شاید اب میری کرکٹ کہانی ختم ہو گئی ہے میری باتیں سننے کے بعد وسیم باری صاحب کہنے لگے میں تو تمہاری بائولنگ سے بڑا خوش ہوں۔ تم نے تو انگلینڈ کے مضبوط بلے بازوں کو رنز بنانے سے روکے رکھا۔ لہٰذا اگلے دونوں ٹیسٹ میچ تو تم ضرور کھیلو گے کپتان کے منہ سے یہ سننے کے بعد میں خوش ہو گیا اور میرا اعتماد بڑھ گیا۔ مجھے ایسا لگا کہ اب میری زندگی بدل گئی ہے۔ مجھے یوں لگا کہ اب مجھے کوئی بھی طوفان نہیں روک سکے گا آگے بڑھنے سے، مجھے خود پر اور اپنے رب پر بڑا امان تھا کہ اگر مجھے مزید مواقع ملے تو میں عمدہ کارکردگی دکھائوں گا۔ انگلینڈ کے خلاف دوسرا ٹیسٹ میچ حیدرآباد میں تھا اللہ کے فضل وکرم سے ہم نے ڈیڑھ گھنٹے میں انگلینڈ کی ٹیم کو آئوٹ کر دیا۔ میں نے 44رنز دے کر 6وکٹیں حاصل کیںتھیں۔ میں اس میچ کامین آف دی میچ بھی ہوا تھا۔ 1977 میں ہی پاکستان ٹیم نے انگلینڈ کا جوابی دورہ کیا میں پاکستان ٹیم کے ساتھ انگلینڈ گیا لیکن بد قسمتی سے ان فٹ ہو گیا۔ میرا بازوں خراب ہو گیا تھا جس کی وجہ سے میں 2سال تک کرکٹ سے دور ہو گیا تھا۔ پھر میں فٹ ہوا تو 1979میں پاکستان ٹیم نے انڈیا کا ٹور کرنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین سچے، کھرے اور ایماندار شخص کے ایم اظہر صاحب بن گئے اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے اس شخص نے آتے ہی اعلان کیا کہ جو لڑکا ڈومیسٹک کرکٹ کھیلے گا اور اچھا پرفارم کرے گا وہی پاکستان ٹیم میں سلیکٹ ہو کر انڈیا جائے گا۔میں نے PCB لیگ میں شاندار بائولنگ کامظاہرہ کرتے ہوئے ٹاپ کیا عمران خان کا نمبر میرے بعد تھا۔ لہٰذا مجبور تھی کہ مجھے پاکستان ٹیم کا حصہ بنایا جاتا۔ اس ٹور میں مشتاق محمد اور سرفراز نواز نہیں کھیلے تھے انہوں نے PCB لیگ میں شرکت نہیں کی تھی۔ 1979کے دورہ بھارت پر پاکستان ٹیم گیا تو اس وقت قومی ٹیم کے کپتان آصف اقبال صاحب تھے۔ وہ میرے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے دورہ بھارت کے دوران مجھے اچھے طریقے سے استعمال نہیں کیا۔ دہلی ٹیسٹ میچ میں راجر بنی کا شاندار کیچ پکڑا۔ پھر گنڈا پاوشواناتھ اور دلیپ وینگسار کر جیسے بہترین بلے بازوں کے خلاف شاندار بائولنگ کا مظاہر کیا۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آئی پتہ نہیںکیوں آصف اقبال نے مجھے بائولنگ سے ہٹا دیا۔ ممبئی ٹیسٹ میں پاکستان کو فالو آن سے بچایا تھا۔ دونوں اننگز میں اسکور بنایا تھا۔ لیکن پانچ اوورز میں گنڈا پاوشواناتھ جیسے بہترین بلے باز کو آئوٹ کیا۔ لیکن اس کے بعد آصف اقبال صاحب نے مجھے مزید بائولنگ نہیں کرائی بلکہ ماجد خان صاحب سارا دن بائولنگ کراتے رہے۔ انڈیا ٹور کے بعد میں نے کامیابیاں حاصل کیں اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ مجھے میرے رب نے میری اوقات سے بڑھ کر نوازا۔ ویسٹ انڈیز کے اسپنرلارنس گبز نے 300وکٹیں حاصل کیں لیکن اس کے باوجود انگلینڈ میں ڈیوڈ فلپس نے ایک کتاب لکھی تو اس کے ٹائٹل پر میری تصویر دی۔ میں ٹیسٹ میچ کھیلنے کے بعد ہوٹل واپس آکر اپنے کمرے تک ہی محدود ہو جاتا تھا حالانکہ کرکٹ میچ کے بعد کئی کھلاڑی ڈسکو چلے جاتے اورکئی شراب پینے کیلئے بارکا رخ کرتے لیکن میں اپنے کمرے میں جا کر میچ کے بارے میں سوچتا رہتا تھا کیونکہ عمران خان کے ساتھ واحد میں ہی وہ بائولر تھا جس نے سارا دن بائولنگ کرنا ہوتی تھی۔ سنیل گواسکر، مائیک گیٹنگ، عمران خان، ایان بوتھم، مارٹن کرو، سچن ٹنڈولکر،رچرڈ ہیڈلی، مہندر امرناتھ، دلیپ وینگسارکر، گنڈاپاوشواناتھ، ایلن لیمپ، ویوین رچرڈز، گراہم کوچ، گلین ٹرنر میرے پسندیدہ کھلاڑی ہیں ان کے علاوہ بیری رچرڈ جیسا بہترین بلے بازنہیں دیکھا۔ جاوید میانداد بھی پسندیدہ بلے باز تھے، میرا کوئی آئیڈیل پلیئر نہیں تھا۔ میں تو اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدے کر کے بنا تھا۔ مجھ میں کوئی ایسی بات نہیں تھی بس اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمدؐ کے صدقے مجھے عزت بخشی ورنہ میں اس کے قابل نہیں تھا۔ 1996میں کولمبو میں محمد اظہر الدین اور سچن ٹنڈولکر انیل کمبلے کو میرے پاس لے کر آئے تو انیل کمبلے تب تک احترام میں کھڑا رہا جب تک میں نے اسے بیٹھنے کو نہیں کہا۔ میں نے انیل کمبلے سے کہا کہ ا گر میں آپ کے دل کی بات جوکہ تم مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو تو بتا دو تو پھر مانو گے۔ یہ جملہ سننے کے بعد اظہر الدین اور سچن ٹنڈولکر ہنس پڑے۔میں نے انیل کمبلے سے کہا کہ تم مجھے سے یہ پوچھنا چاہتے ہو کہ میرا گیند لیگ بریک کس طرح ہو سکتا ہے تو میر اجواب ہے کہ تمہارا گیند کبھی بھی لیگ اسپن نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا تم اپنی بائولنگ میں ویری ایشن پیدا کرو۔ اور اپنی طرف سے تم جو گیند لیگ بریک کرتے ہو اس کوفلپر کے طور پر استعمال کرو۔ اس نے میری باتوں پر عمل کیا اور پھر اس نے وکٹوں کے ڈھیر لگائے۔ اسی طرح شین وارن نے مجھ سے لیگ اسپن بائولنگ کے فن کے بارے میںمفید باتیں پوچھی اور ان پر عمل کرتے ہوئے ٹیسٹ کرکٹ میں وکٹوں کا پہاڑ کھڑا کیا۔مشتاق احمد، دانش کنیریا، ثقلین مشتاق، شاہد خان آفریدی، مرلی دھرن اور جنوبی افریکا کی طرف سے کھیلنے والے لیگ اسپنر بائولر عمران طاہر سمیت کئی نوجوا ن اسپنرز کو اسپن بائولنگ کے گر بتا چکا ہوں۔ سر ڈان بریڈ مین نے اپنے ایک انٹرویو میں کہاتھا کہ میں نیٹ پریکٹس پر عبدالقادر کو کھیلنا چاہتا ہوں۔ جو کہ میرے لئے بڑی عزت کی بات ہے۔ سرگیری سوبرز نے ٹیسٹ کرکٹر اظہر خان کو ایک ملاقات میں بتایا کہ ’’عبدل‘‘ کو کھیلتے ہوئے میں نے کبھی آنکھ نہیں جھپکی۔ میں شروع میں توبہت اچھی بیٹنگ کیا کرتا تھا لیکن میرے رب نے مجھے ایک کامیاب لیگ اسپنر بنا دیا۔ مجھے کبھی کسی لڑکی سے عشق نہیں ہوا۔ اور نہ ہی میں نے کبھی اپنی بیوی کو آج تک (آئی لو یو) I LOVE YOUکہا ہے۔ عبدالقادر نے بتایا کہ جب میں ایف اے میں پڑھ رہا تھا ان دنوں میری شادی ہو گئی تھی میری بیوی میری کزن ہیں میرے چار بیٹے اور 2بیٹیاں ہیں۔ رحمان قادر، عمران قادر، سلمان قادر اور عثمان قادر بیٹے ہیں جبکہ نور فاطمہ اور نور آمنہ میری بیٹیاں ہیں۔جبکہ ٹیسٹ کرکٹر عمر اکمل میرے داماد ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ میری بنائی ہوئی ٹیم نے 2009 میں انگلینڈ میں کھیلے جانے والے دوسرا ٹونٹی20ورلڈ کپ جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا۔اس ٹورنامنٹ کے دوران ہی میری پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ کچھ اختلافات پیدا ہو گئے جس کے بعد میں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ایک سوال کے جواب میں ماضی کے عظیم لیگ اسپن بائولر عبدالقادر نے کہا کہ ہمارے ہاں چیئرمین کے عہدے کو سیاسی اثرورسوخ سے حاصل کرنے والا کرکٹ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اس عہدے کو پانے سے قبل وہ قومی کھلاڑی سے ہاتھ ملانا فخر اور گھروں پر دعوت میں بلانا اعزاز سمجھتا ہے، لیکن جیسے ہی چیئرمین کے عہدے پر براجمان ہوتا ہے وہ تمام ایسے کھلاڑیوں کو اپنا ملازم اور نوکر سمجھتا ہے اس کے تیور بدل جاتے ہیںکرکٹرز تاریخ ساز ہوتے ہیں۔ وہ تاریخ لکھتے ہیں۔ چیئرمین اور دوسرے انتظامی عہدیداروں کو تاریخ میں جگہ نہیں ملتی۔ عمران خان قومی ہیرو ہیں یہی تاریخ ہے۔ لیکن افسوس کہ یہاں اندھیر نگری کا راج ہے۔ یہی تو مصیبت ہے کہ یہاں احتساب کا نظام ہے ہی نہیں۔ چیئرمین پر چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے۔ اگر وزیراعظم عدالتوں میں جوابدہ ہو سکتے ہیں تو کرکٹ بورڈکا چیئرمین کیوں نہیں؟ یہ گورننگ باڈی کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ بورڈ میں ہونے والے ہر فیصلے کے امین ہوں اور نتائج کے بھی ذمہ دار ہوں۔ ہمارے ہاں تو بھرتی ہونے والے گورننگ باڈی اور چیئرمین ہی اس اہل نہیں کہ وہ کوئی فیصلہ کر سکیں۔ جی حضوری اور خوشامد سے میٹنگ شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہو جاتی ہے۔ سب چڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔ جانے والے کو پوچھتے نہیں اور نئے آنے والے کی راہ میں پلکیں بچھاتے ہیں۔ یہ منافقانہ روش ہے جس کا نقصان کرکٹ کو ہو رہا ہے۔ کرکٹ میرا پہلا اور آخری عشق ہے اس کی بربادی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اگر پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات کو ٹھیک کرنا ہے تو دو باتوں پر توجہ دینی بہت ضروری ہے، سفارش کلچر کو جڑ سے اکھاڑا جائے اور کرکٹ بورڈ سے غیر کرکٹرز عناصر کو فارغ کیا جائے۔ میں جسٹس شوکت صدیقی کے اس فیصلے کو سلیوٹ کرتا ہوں جس میں انہوں نے لکھاتھا کہ کرکٹ بورڈ کے انتخابات میں پروفیشنل کرکٹرز ہی حصہ لیں اور منتخب ہو کر کرکٹ بورڈ کی بھاگ دوڑ سنبھالیں اور کرکٹ کو فروغ دیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کرکٹ کو ٹھیک کرنے کا واحدیہی حل ہے دوسرا میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ رشوت، اقربا پروری اور خوشامدی لوگوں نے نظام کا خانہ خراب کر دیا ہے۔ معذرت کے ساتھ ہم کوئی قوم ہی نہیں، ایک بے مقصدہجوم ہیں۔ ایسی صورتحال میں آپ کیا ڈھونڈ سکتے ہیں؟ کوالٹی ختم اور کوانٹٹی بڑھ گئی ہے۔ حنیف محمد تھیوری ختم ہو گئی اور خوشامدیوں اور منافقوں نے تمام جگہیں پُر کر لیں۔ اس لیے بڑے کھلاڑی بننے والے لڑکے دستیاب نہیں ہیں۔ یہ رویہ مجموعی طور پر پوری قوم میں نظر آتا ہے جس سے ظاہری بات ہے نئے آنے والے لڑکے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں عبدالقادر نے کہا کہ میں مصباح الحق کو کرکٹ سے رغبت رکھنے والا ایک ڈیسنٹ کپتان مانتا ہوں۔ وہ بہت سمجھدار شخص ہے جس نے اپنی کارکردگی سے ناقدین کے منہ بند کر دیئے۔ آپ جو مرضی کہیں اس کے جواب میں صرف مصباح کی کارکردگی بولے گی۔ وہ بہادر اور تعریف کے قابل ہے۔ ایک سوال کے جواب میں عبدالقادر نے کہا کہ میں نے عمران خان جیسا جنگجو کپتان نہیں دیکھا۔ میرے خیال میں مشتاق محمد اور جاوید میانداد شاندار کپتان تھے۔ ان دونوں کو کرکٹ کی شدھ بدھ تھی اور یہ ٹیم کو کھلانا جانتے تھے۔ میں مشتاق محمد کی قیادت میں تو نہیں کھیلا لیکن وہ بہترین کپتان تھے۔ عبدالقادر نے بتایا کہ ڈکی برڈ نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ عبدالقادر کی ابھی پانچ سال کرکٹ پڑی تھی۔ اس کی اصول پرستی اور سچ کہنے کی عادت نے اس کا کیریئر ختم کر دیا۔
عبدالقادر نے بتایا کہ مجھے تو اپنے رب سے عشق ہے میں تو صبح شام اپنے سوہنے رب اور اس کے پیارے رسولؐ کے گیت گا کر خوش ہوتا ہوں۔ میرا نوجوان نسل کو یہی پیغام ہے کہ وہ دین اسلام کے بتائے ہوئے روشن راستے پر چلیں۔ اسلام کے جتنے بھی فرض ہیں ان کی بڑی احتیاط کریں، نماز پڑھیں، قرآن
پاک کو ترجمے کے ساتھ پڑھیں اورآخرت کی فکر کریں۔

error: Content is protected !!