پی ایس ایل تھری شروع ہوئی تو ملتان سلطانز سب سے تگڑی ٹیم دکھائی دیتی تھی۔ مینجمنٹ میں ٹام موڈی اور وسیم اکرم جیسے نابغے بیٹھے تھے۔ کپتانی کے لیے ٹی ٹوئنٹی کے تجربہ کار اور پاکستان میں کامیاب ترین کپتان شعیب ملک کو چنا گیا۔فرنچائز کرکٹ میں چونکہ ہر سال بینچ پہ چہرے بدلتے رہتے ہیں، اس لیے ٹیم کو یکجا رکھنے میں بنیادی کردار کپتان اور کوچ کا ہی ہوتا ہے۔ ملتان کا یہ پہلا سیزن تھا، کوچنگ سٹاف اور کپتان کے انتخاب تک بنیادی فیصلے بہت اچھے کیے گئے۔فرنچائز کرکٹ میں چونکہ مقامی فین کلب بہرحال محدود ہی ہوتا ہے لہٰذا اس کو ہائپ کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی پی ایل صرف دو ماہ کے لیے ایک ایک سٹار پہ کروڑوں لٹا دیتی ہے۔ ملتان نے اس معاملے میں بھی کوئی غلطی نہیں کی کئیرون پولارڈ ٹی ٹونٹی کرکٹ کے مسلمہ سٹار ہیں۔ وہ ٹی ٹوئنٹی کے کامیاب ترین آل راونڈرز میں شمار کیے جاتے ہیں۔ کمار سنگاکارا اگرچہ بنیادی طور پہ ٹی ٹوئنٹی پلئیر تو نہیں تھے لیکن اس وقت دنیا بھر کی لیگز میں شاید ان جیسا مستقل مزاج بیٹسمین کوئی ہی ہو۔ عمران طاہر آئی سی سی رینکنگ میں دنیا بھر پہ راج کر چکے ہیں۔بولنگ اٹیک میں دیکھا جائے تو روز اول سے ملتان کا بولنگ اٹیک سب سے مضبوط تھا۔ طویل قامت محمد عرفان، لینتھ بولنگ کے ماہر جنید خان، ٹی ٹوئنٹی بولنگ میں یکتا سہیل تنویر اور بیش بہا تجربے کے مالک عمر گل کے ساتھ جب عمران طاہر میدان میں اترتے تھے تو سارے شکوک و شبہات ہوا ہو جاتے تھے۔لیکن بولنگ اٹیک کی یہی مضبوطی ملتان سلطانز کی سب سے بڑی کمزوری بن گئی۔ ٹی ٹوئنٹی میں عمومی غلط فہمی یہ ہے کہ زیادہ رنز بنانے والا یونٹ جیت حاصل کرتا ہے حالانکہ رنز تو ٹی ٹوئنٹی میں کبھی رکتے ہی نہیں، جیتتی وہ ٹیم ہے جو وقفے وقفے سے رنز کے آگے بند باندھنا جانتی ہے اور جو مسلسل وکٹیں لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ملتان کے اٹیک میں بھرپور صلاحیت تھی کہ وہ وکٹیں لے سکے، تاہم پہلے تین چار میچوں کے بعد ملتان کی حکمت عملی تھکاوٹ کا شکار نظر آئی اور اپوزیشن کے لیے ان کی سٹریٹیجی کو پڑھنا آسان تر ہوتا گیا۔پی ایس ایل کی کوئی بھی فرنچائز ایسی نہیں تھی جس نے کم از کم دو ریگولر سپنرز نہ کھلائے ہوں۔ ملتان واحد ٹیم تھی جس کے پہلے سے آخری میچ تک صرف عمران طاہر ہی مستند سپنر تھے۔حالانکہ یو اے ای کی وکٹوں پہ دو سپنرز ضروری تھے اور دو کے بعد تیسرا کوئی لیفٹ آرم سپنر ہوتا تو سونے پہ سہاگے کا کام کرتا، جیسے اسلام آباد کے لیے سمت پاٹیل نے کیا۔ملتان نے ڈرافٹ میں ایک اور سنگین غلطی کی اور یہ ناقابل فہم ہے کہ وسیم اکرم کی موجودگی میں یہ غلطی کیسے ہو گئی۔دو اوپنرز جو چنے گئے، ان میں ایک تو احمد شہزاد تھے لیکن دوسرے اوپنر کے طور پہ شان مسعود کو چنا گیا، جو ٹی ٹوئنٹی تو دور، ون ڈے کے بھی پلئیر نہیں ہیں۔ٹورنامنٹ شروع ہوتے ہی غالبا سلطانز کو اس بات کا احساس ہو گیا ہو گا تبھی شان مسعود کو کسی بھی میچ میں نہیں کھلایا گیا۔ سنگاکارا سے اوپننگ کروائی گئی جو نہایت نتیجہ خیز بھی رہی۔لیکن سنگاکارا سے اوپن کروانے کا نقصان فائدے سے کہیں بڑھ گیا۔ ملتان کے مڈل آرڈر میں صرف شعیب ملک، صہیب مقصود اور ڈیرن براوو رہ گئے۔ ڈیرن براوو کی مہارت اپنی جگہ مگر مزاجاً وہ ماڈرن ٹی ٹوئنٹی کی رفتار سے کافی پیچھے ہیں۔ صہیب مقصود پریشر نہ ہوتے ہوئے پھر بھی ایک آدھ بڑی اننگ کھیل لیتے ہیں لیکن پریشر میں کچھ نہیں کر پاتے۔مڈل آرڈر کا مضبوط ترین لنک سنگاکارا تھے اور جب سنگاکارا سے اوپن کروانا سلطانز کی مجبوری ٹھہرا تو ایسے میں مڈل آرڈر کا سارا بوجھ کپتان شعیب ملک پہ آن پڑا۔ انہوں نے اپنے تئیں تو اسے خوب نبھایا لیکن مسلسل دس میچز تک علم اٹھائے رکھنا کسی پلئیر کے بس کی بات نہیں۔بطور فرنچائز ملتان ایک ایسی ٹیم بن کر سامنے آئی ہے جس نے شور شرابے اور دھوم دھڑکے کی بجائے خالصتاً کرکٹ پہ فوکس کیے رکھا۔ لیکن شاید پہلا ڈرافٹ تھا، اس لیے سلیکشن اتنی جلدی میں کر گئے کہ دوسرا اوپنر اور دوسرا سپنر ہی لینا بھول گئے۔