بیڈمنٹن کا زوال

تحریر،،نواز گوہر

سپورٹس فیڈریشینز اور ایسوسی ایشینز کسی بھی کھیل کو فروغ اور ترقی کی جانب گامزن رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں ان کی ذمہ داری میں نوجوان کھلاڑیوں کو احسن طریق پر تربیت ، مطلوبہ معیار کے مطابق کھلاڑیوں کی ٹریننگ اور فزیکل فٹنس برقرار رکھنے کے لئے پلان ، کوچز اور کھلاڑیوں کے معاشی مسائل حل کرنا ، خواتین کھلاڑیوں کو تحفظ فراہم کرنا ، کھیل کے تیکنیکی مسائل پر قابو پانا ، مسلسل ترقی کے لئے پروگرسیو پلان پر عمل کرنا ، فیئر سلکیشن اور بیرون ملک نمائندگی کے لئے ذاتی پسند و ناپسند کے عنصر کو ختم کرنا اہم ترجیحات ہوتی ہیں ۔ ان کے قیام کا دوسرا اہم مقصد اس کھیل میں ملک اور قوم کا نام غیرملکی سطح پر بلند کرنا بھی ہوتا ہے ۔
بدقسمتی سے پاکستان سپورٹس بورڈ سے 24لاکھ روپے سالانہ گرانٹ اور سابق صدر فیڈریشن(2006-2008) لفٹیننٹ جنرل (ر) محمد اکرم کی طرف سے دلائے گئے 50لاکھ روپے فکسڈ ڈپازٹ منافع کھانے والی پاکستان بیڈمنٹن فیڈریشن مندرجہ بالا ایک بھی مقصد حاصل کرنے میں مستقل ناکام ہے ۔بیڈ منٹن کھیل سے وابستہ عوام یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ نئے سیکرٹری PBFواجد علی چوہدری جو کہ خود قومی چیمپئین اور انٹرنیشنل کھلاڑی رہ چکے ہیں ان کی موجودگی میں بیڈ منٹن کھیل عروج اور ترقی کے تمام منازل طے کر لے گا ۔ لیکن سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوا ۔ واجد علی اور ان کے حواریوں کی برسراقتدار دوسری ٹرم جاری ہے لیکن تاحال کھیل اور کھلاڑیوں کا کوئی مستقبل نہیں نہ ہی کوئی ڈویلپمنٹ نظر آئی ، عرصہ سے مردوں میں حافظ عرفان اور مراد خان اور خواتین میں ماہ حور شہزاد اور پلوشہ بشیر ہی فائنل میں آمنے سامنے نظر آتے ہیں اور یہ کھلاڑی کسی بھی انٹرنیشنل مقابلے میں پہلے ہی رائونڈ میں فارغ ہو جاتے ہیں ۔کیا یہی کھیل کی ترقی ہے مزید یہ کہ ان کھلاڑیوں کی رہنمائی کیلئے جو کوچز ان کے ہمراہ ٹور کرتے ہیں وہ ان کھلاڑیوں کو مد مقابل کھلاڑیوں کے کمزور پوائنٹ سے آگا ہ ہی نہیں کر سکتے اور دوران میچ رہنمائی بھی نہیں کر سکتے ۔ فیڈریشن کے یہ نام نہاد ، ناتجربہ کار کوچز ورلڈ لیول کے کھلاڑیوں سے دورانِ میچ مقابلہ کرنے کی فوری پلاننگ بھی نہیں کر سکتے اس کا مظاہرہ حالیہ کامن ویلتھ گیمز 2018؁ء آسٹریلیا میں ہوا جہاں مراد خان انڈیا کے ورلڈ نمبر 2سری کانتھ کڈامبی سے بہترین مقابلہ کر رہا تھا اور قریب تھا کہ یہ مقابلہ تیسرے سیٹ میں چلا جائے مگر اوسط درجے کے کوچ افتخار حسین ،مراد خان کو دوران ِ

میچ انڈین ورلڈ سٹار کے ویک پوائنٹس بتانے سے قاصر تھا ۔ گول کوسٹ آسٹریلیا میں ماہ حور شہزاد کی پہلی بار انفرادی کارکردگی نمایاں رہی دعا ہے کہ وہ اسے ایشین گیمز میں برقرار رکھ سکے ۔ اب ایشین گیمزانڈونیشیا 2018؁ء سر پر ہیں اور فیڈریشن نے مردوں کی جو ٹیم سلیکٹ کی ہے اس میں بھی اعتراضات موجود ہیں ۔ٹرائلز سے چند روز قبل نیشنل بنک کے مراد خان کو نام نہاد بنیاد پر 15ہزار روپے جرمانہ کر کے ٹینشن دی گئی ، یہ کھلاڑی 2011؁ء سے تا حال قومی مقابلوں میں فائنلسٹ ہے اور قومی چیمپیئن یا رنر اپ کے درجے سے نیچے نہیں آیا ۔ فیڈریشن نے جرمانے کے ذریعے اسے ذہنی دبائو میں رکھا گو کہ اس کے ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مداخلت پر جرمانہ ادا نہیں کیا گیا لیکن فیڈریشن KPKکے اس عظیم کھلاڑی کو ٹرائلز میں شکست دینے میں کامیاب ہو گئی اور اس کی جگہ عظیم سرور کوٹیم میں جگہ بنانے کا موقع مل گیا۔ واضح رہے اس ماہ جولائی میں ہونے والی کوئٹہ نیشنل رینکنگ ٹورنامنٹ میں مراد خان پھر نمبر 2پوزیشن حاصل کر چکا ہے اور ایشین گیمز کے لئے سلیکٹڈ کھلاڑی عظیم سرور کوارٹر فائنل میں ہی ہار گیا تھا ۔اسی طرح مینز ڈبلز میں ایشین گیمز کے لئے اگر سلیکشن بہترین کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جائے تو یہاں عتیق چوہدری اور راجہ حسنین کو موقع ملنا چاہیے جو کہ مسلسل دوسری مرتبہ محنت کر کے قومی مقابلوں کا فائنل کھیل رہے ہیں لیکن بیڈمنٹن فیڈریشن کی عجیب منطق ہے کہ اس نے مینز ڈبلز کی نمائندگی کیلئے رضوان اعظم اور کاشف سلہری کو بغیر ٹرائل سلیکٹ کر لیا ۔ ماضی کے ان ڈبلز چیمپئین کے مقابلے میں عتیق چوہدری اور راجہ حسنین کو موقع نہ دینا سراسر نا انصافی ہے ۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کاشف سلہری اور سیکرٹری PBFدونوں ضلع پتوکی سے تعلق رکھتے ہیں ، علاقہ پرستی کا یہ فیصلہ قومی مفاد میں نہیں ، کھلاڑی بد دل ہو چکے ہیں کہ جب ان کو اعلیٰ صلاحیتوں کا جائز مقام ہی نہیں ملتا تو بیڈ منٹن کس مقصد کیلئے کھیلیں ۔
پاکستان بیڈمنٹن فیڈریشن میں اچھی کارگردگی والے کھلاڑیوں کو انڈر پریشر رکھنے کا بے حد رجحان ہے وہ اعلیٰ کارکردگی کو سراہنے کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جس کی تازہ مثال دبئی انٹرنیشنل ٹورنامنٹ2018؁ء میں بہترین کھیل کا مظاہرہ کرنے والے نوجوان کھلاڑیوں سعد عامر اور رضا علی پر پابندی لگا دی گئی ، ان دونون کھلاڑیوں نے ذاتی اخراجات سے انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں شرکت کی اور انڈر15-اور انڈر17-مقابلوں میں سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی اور انڈر 17-کے سنگلز میں فائنل کھیلنے کا اعزاز بھی حاصل کیا ۔

کسی بھی انٹرینشنل ٹورنامنٹ میں پاکستان کی طرف سے اب تک نوجوان کھلاڑیوں کی یہ بہترین کارکردگی ہے ۔ حیران کن طور پر سیکرٹری واجد علی چوہدری نے ان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ڈھٹائی کے ساتھ ملک میں ٹورنامنٹس کھیلنے پر پابندی لگا دی جو کہ سمجھ سے باہر ہے ۔ دبئی ایک آزاد اسٹیٹ ہے اور بیڈمنٹن ورلڈ فیڈریشن کا ممبر بھی نہیں ۔دنیا کے تمام کھلاڑی یہاں کرائے گئے ٹورنامنٹس کو بہترین قرار دیتے ہوئے اس میں شرکت کرتے ہیں جبکہ ماضی میں پاکستان کے بھی صف اول کے مرد اور خواتین کھلاڑی ذاتی اخراجات پر اس ٹورنامنٹ میں شرکت کرتے رہے ہیں اور ان کے نام کے ساتھ بھی پاکستان کا نام ہی لکھا جاتا تھا لیکن اس درجے تک کامیابی صرف رضا علی اور سعد عامر کے حصے میں آئی ۔ یہ ریکارڈ ہے کہ PBFنے اس سے قبل کسی بھی کھلاڑی پر پابندی نہیں لگائی مگر ان پر کیوں ؟ ان کھلاڑیوں کے والد عامر شجاع نے PBFکے اس نارواسلوک پر عدالت سے رجوع کر لیا ہے ، جہاں معزز عدالت یقینا پاکستان کا نام بلند کرنے والوں کا ساتھ دے گی اور عوامی رائے بھی یہی ہے ۔ ٹیکنیکل حوالے سے بھی بیڈمنٹن فیڈریشن مکمل نااہلی کا مظاہرہ کر رہی ہے 2016؁ء میں پاکستان انٹرنیشنل سیریز کے لئے قومی ٹیم کے ملائشین کوچ لوکاس مینیش کی کوچنگ کوالیفیکیشن میں صرف ایک شارٹ کورس بیڈمنٹن ملائشیا سے کیا گیا شامل تھا جبکہ ان کی CVکے مطابق وہ کوچ کم اور بائبل کے پاسٹر زیادہ تھے اور ملائشیا میں اپنے ضلع کے چیمپئن تھے ۔ ریکارڈ کے مطابق پاکستان انٹرنیشنل سیریز پاکستان کے ان کھلاڑیوں نے جیتی جنہوں نے ان سے ٹرینینگ حاصل نہیں کی تھی۔اس سلسلے میں قومی زرمبادلہ کو بے جا کیو ں ضائع کیا گیا اور کمزور CVوالے کوچ کو قومی ٹیم کا کوچ بنانا فیڈریشن پر سوالیہ نشان ہے ۔ نیشنل رینکنگ کوئٹہ 2018؁ء کے دوران غیر میعاری شٹل کاکس نے کھلاڑیوں کا بھرکس نکال لیا ۔ سطح سمند ر سے بلند اس مقام پر فیڈریشن کی طرف سے 77سپیڈ کی شٹل استعمال کی گئی جو کہ اس طرح کے مقام پر کھیلنے کے قابل نہیں ہوتی ۔ کیا پاکستان بیڈمنٹن فیڈریشن کھیل کے تیکنیکی تقاضوں سے نابلد ہے ۔ یہاں پر تو 74یا 75والی سپیڈ کی شٹل کاکس استعمال کی جانی چاہیے تھی ۔ نتیجتاً کھلاڑی 77سپیڈ کی شٹل کے پروں کو ہاتھ سے موڑ کر سلو کرتے رہے جس کی فلائٹ نے کھلاڑیوں کو مستقل پریشان رکھا اور اپنی ان صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کر سکے جس کے لئے وہ تیار ہو کر آئے تھے ۔ رہائش ، خوراک ، ٹرانسپورٹ اور دیگر مسائل پر بحث کرنا بیکار ہے کیونکہ ان کے بارے میں مقامی اخبارات کافی کچھ لکھ چکے ہیں ۔ مزید تیکنیکی مسائل میں نا مناسب امپائرنگ بھی کھلاڑیوں کی کارکردگی میں رکاوٹ رہی ۔ اس ٹورنامنٹ میں ایمپائر بڑے کھلاڑیوں کے فالٹس دینے سے کتراتے رہے جو کہ صریحاً زیادتی تھی ۔ کھلاڑیوں کو دی جانے والی انعامی رقم بھی نامناسب تھی ۔ مینز سنگلز ونر کو 24ہزارروپے اور رنر اپ کو 11ہزار روپے اور خواتین کھلاڑیوں کو اس سے بھی کم انعام ملا ۔ یہ انعامی رقم لاہور ، کراچی ، اسلام آباد اور پشاور سے کوئٹہ تک کے سفری اخراجات کو بھی پورا نہیں کر سکتی ۔ ایک کھلاڑی اپنی ٹریننگ اور خوراک پر اس سے کہیں زیادہ رقم خرچ کرتا ہے ۔ اس ضمن میں ناکافی انعامی رقم سے کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ۔ PBFکی دیکھا دیکھی اس کے صوبائی یونٹس بھی کھلاڑیوں کو ناجائز تنگ کرتے رہتے ہیں جس کی تازہ ترین مثال KPKرمضان سپورٹس گالا میں نظر آئی ۔ یہ ٹورنامنٹ سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے ایک بہترین ٹورنامنٹ تھا جس میں صوبے کے دیگر شہروں کے کھلاڑیوں کو مفت رہائش ، روزانہ ریفریشمنٹ ، سحر و افطار کا بندوبست اور مقامی سطح پر 2لاکھ 60ہزار روپے کی انعامی رقم بیڈمنٹن ، ٹیبل ٹینس اور فٹبال کے کھلاڑیوں میں تقسیم کی گئی ۔مگر KPKبیڈمنٹن ایسوسی ایشن کے سیکرٹری امجد خان اور ان کے ساتھی سینئر کھلاڑیوں نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹورنامنٹ کی معمولی انٹری فیس 200روپے ادا نہ کرکے گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا ۔ امجد خان اس سے قبل کرائے گئے ٹورنامنٹس میں کھلاڑیوں کی حق تلفی کرتے ہوئے اپنے بیٹے میکائیل کو انڈر 15-کیٹگری میں کھلاتے رہے ہیں جو کہ کسی بھی صور ت میں عمر کے لحاظ سے انڈر 15-کا نہیں ۔ مزید ظلم یہ ہے کہ ایک ٹورنامنٹ میں اپنے بیٹے کی عمر خان سے جیتنے کی خبر بھی لگا دی جبکہ ریکارڈ کے مطابق عملاً یہ مقابلہ ہوا ہی نہیں ۔ امجد خان نے عمر کو ڈرا دھمکا کر فائنل والے دن آنے ہی نہیں دیا ۔ ایک اور ٹورنامنٹ میں امجد خا ن نے من مانی کرتے ہوئے پوائنٹس کا نیا سکورنگ سسٹم 11پوائنٹس پر بیسٹ آف تھری نافذ کر دیا ۔ دنیا میں فی الوقت کوئی ایسا ٹورنامنٹ نہیں جس میں اس طرح کا پوائنٹ سسٹم ہو لیکن سیکرٹری KPKجو کہ واجبی تعلیمی قابلیت کے ساتھ کپڑے کے کاروبار کے ساتھ منسلک ہیں اور اپنے آپ کو بیڈمنٹن کھیل کی اتھارٹی سمجھتے ہیں ۔ کھلاڑیوں کو پریشان کرنا اور ٹریننگ کے لئے قیوم سٹیڈیم میںصرف منظور نظر کھلاڑیوں کو کھیلنے دینا ان کا وطیرہ ہے، ڈی جی KPKسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے کھلاڑیوں کے لئے دی جانے والی شٹل کاکس صرف اپنے بیٹے میکائیل اور اس کے دوستوںقاری عدنان وغیرہ پر استعمال کی جاتی ہیں ۔ انہوں نے سرکاری کوچ ندیم خان اور دیگر کوچز کو بھی یرغمال بنایا ہوا ہے ۔امجد خان کے ان ناجائز فیصلوں کو مقامی بیڈمنٹن کے حلقوں میں سخت ناپسندیدگی کا سامنا ہے اور شاہد انہی حالات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سیکرٹری PBFواجد علی نے خیبر پختونخوا کی جانب سے منتخب بیڈمنٹن فیڈریشن کے صدر میاں افتخار حسین کو صدارت سے محروم کر دیا اور ان کی جگہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ملک نثار شاہوانی کو آئندہ چار سال کے لئے PBFکا صدر بنوا دیا اور یوں عنقریب امجد خان اینڈ کمپنی کی بھی KPKسے جلد چھٹی ہونے والی ہے ۔ میاں افتخار حسین سابق وزیر اطلاعات KPKجیسی با اثر شخصیت کے مقابلے میں کوئٹہ کے ایک سرکاری ہوسٹل کے کلرک نثار شاہوانی جیسی کمزور شخصیت کو بیڈمنٹن فیڈریشن کا صدر بنانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ واجد علی اپنے فیصلوں میں من مانی کیلئے فیڈریشن پر گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں ، انہیں کھیل کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہوں نے حال ہی میں اقربا پروری کی بہترین مثال قائم کی اور اپنے بھائی ماجد علی چوہدری کو پنجاب بیڈمنٹن ایسوسی ایشن کا صدر منتخب کر دیا یعنی اب واجد گھر کی بیڈمنٹن چاہتے ہیں ۔ ان کے بھائی ماجد علی پاکستان گروپ آف سکول اینڈ کالجز کے نام سے تعلیمی ادارے کی چین کے مالک ہیں ۔ قبل ازیں وہ ملک یمن میں تھے جہاں کے حالات خراب ہونے پر پاکستان شفٹ ہوئے ہیں اور اب واجد علی کھیل کی بجائے بھائی کے ادارے کو فروغ دیتے ہوئے 2015؁ء سے ملک میں ہونے والی ہر نیشنل چیمپیئن شپ کا نام پاکستان گروپ آف سکول اینڈ کالجز نیشنل چیمپیئن شپ رکھتے چلے آرہے ہیں ، یوں فیڈریشن کے ساتھ گھریلو بزنس کو بھی فروغ دیا جار ہا ہے ۔خواتین کھلاڑیوں کو تحفظ پہنچانے کی بجائے سیکرٹری PBFنے مشہور سیکس سیکنڈل کے بدنام کردار ساجد حسین (رحیم یار خان) کو ابھی تک فیڈریشن کے معاملات میں شریک کر رکھا ہے ۔ واضع رہے کہ دسمبر 2016؁ء میں واجد علی نے PBFکے باضابطہ بیان کے مطابق ساجد حسین کو پنجاب سے تعلق رکھنے والی بیڈمنٹن کھلاڑی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی وجہ سے فیڈریشن کے معاملات سے الگ کر دیا تھا ۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ساجد حسین PBFکی اندرونی کمزوریاں جانتا ہے اس لئے فیڈریشن اسے عملاً علیحدہ کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکتی اور واجد علی کا اس کے خلاف اُس وقت کا بیان عوامی ردِ عمل کو روکنا تھا ۔ پاکستان بیڈمنٹن کمیونٹی کو سمجھ جانا چاہیے کہ یہ کھیل اب پاکستان میں تباہی کے گڑھوں سے نہیں نکل سکتا ۔ کوئی نیب (NAB)یا عوامی عدالتیں کھیلوں کے اس زوال پر نظر کریں اور سپورٹس فیڈریشنز کے معاملات کی چھان بین کرے ۔ خصوصاً فیڈریشن کے کلیدی عہدوں پر رشتہ داروں کو فائز کرنا جرم قرار دیا جائے ۔ کھلاڑیوں کی حق تلفی ممنوع ہو اور خواتین کھلاڑیوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے ۔ امید ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ملک میں کھیلوں کو نقصان پہنچانے والی مافیا فیڈریشنز کے خلاف سخت اقدامات کرتے ہوئے کھیلوں کے فروغ کے لئے بہترین حکمت عملی اپنائے گی۔

error: Content is protected !!