تحریر۔محمد آصف ریاض
ریسلنگ وہ کھیل ہے جس نے کم وسائل کے باوجود عالمی سطح پر پاکستان کیلئے گراں قدر کارنامے سر انجام دیئے ہیں- کامن ویلتھ گیمز ہوں یا پھر ایشین و ساؤتھ ایشین گیمزہمارے پہلوان ہر ایونٹ میں میڈلز حاصل کرتے رہے ہیں-اولمپک کے بعد کھیلوں سب سے بڑے مقابلے کامن ویلتھ گیمز کی تاریخ میں پاکستان نے اب تک 25 گولڈ میڈلز سمیت کل 75 تمغے جیتے ہیں ان میں سے 21 سونے کے تمغوں سمیت 42 ریسلنگ کے کھیل میں آئے کیا یہ بڑا کارنامہ نہیں ہے-پاکستانی ریسلنگ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اولمپک میں پاکستان کو میڈل جیتوانے والی تین کھیلوں میں شامل ہے- 1960 کے روم اولمپکس میں محمد بشیر نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا، اس کے علاوہ یوتھ اولمپک میں پاکستان نے ابھی تک دو میڈل جیتے ہیں اور ان میں سے ایک کچھ روز پہلے پہلوان عنایت اللہ لے کر آئے-پہلوانی ایک مہنگا کھیل ہے اور ایک اچھے پہلوان کو خوراک کے لیے کم از کم 15 سو سے دو ہزار روپے درکار ہوتے ہیں، جسے برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے اور خوراک کے علاوہ ایک پہلوان کی ٹریننگ پر جو خرچہ آتا ہے اس کا حساب تو ہو ہی نہیں سکتا کیوں کہتے ہیں ناں جیتنا گڑ ڈالو گئے اتنا ہی میٹھا ہوگا-ویسے سب کو یہ سن کر حیرت ہوگئی کہ وہ کھیل جس میں پاکستان نے سب سے زیادہ میڈلز جیتے ہیں اس کا سالانہ بجٹ کتنا ہے، جی ہاں ریسلنگ فیڈریشن کو کھیل کی فروغ، جونیئر و سینیئر لیول کی نیشنل چیمپئن شپ، کھلاڑیوں کو بیرون ملک بھجوانے اور دفتری خرچے چلانے کے لیے صرف 18 لاکھ ملتے ہیں-ان 18 میں سے پاکستان ریسلنگ فیڈریشن کو ریفریز کے لائسنس کی تجدید کیلئے سالانہ 8 لاکھ روپے انٹرنیشنل باڈی کو دینے پڑتے ہیں، دفتر کا کرایہ بجلی کے بل اور بس گرانٹ ختم-باقی چیمئن شپ، پلیئرز کو انٹرنیشنل مقابلوں میں شرکت کروانے ان کے ٹریننگ کیمپس لگانے کا کام ٹھپ، آج انعام اور عنایت اللہ سمیت ہمارے جو بھی پہلوان میڈلز لا رہے ہیں وہ اپنی مدد آپ کے تحت-تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے کھیلوں کی تاریخ میں اب تک سب سے زیادہ میڈلزریسلنگ میں جیتے ہیں اور ان کی تعداد 83 ہے لیکن اس کھیل نے ہمارا وقار جس قدر بلند کیا ہم اس کے ساتھ اتنی ہی زیادتی کی، اگر ایک کھیل ملک کو میڈلز لا کر دے رہا ہے تو پھر اس کو پیسے دینے میں اتنی تنگ نظری کیوں؟-گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی انعام بٹ پاکستانی تاریخ کے سب سے کامیاب پہلوان ہیں، انھوں کامن ویلتھ گیمز میں دو بار گولڈ میڈل جیتا(2010 اور 2018) وہ ایشین بیچ گیمزاورساؤتھ ایشین میں گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب ہوئے، اس کے علاوہ ایشین گیمز میں انھوں نے چاندی کا تمغہ اپنے نام کیا، اس کے علاوہ انعام کا جو اس سے گران قدر کارنامہ ہے وہ ورلڈ بیچ گیمز میں لگاتار دو بار اپنی ویٹ کیٹیگری میں ورلڈ چیمپئن بننا ہے لیکن وہ آج جس مقام پر ہیں وہ صرف اور صرف اپنی ذاتی محنت کی وجہ سے ہیں-اس حوالے سے جب انعام بٹ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کم وسائل کے باوجود ملک کے لیے کارنامے سرانجام دینے پر فخر ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے اس کھیل کے ساتھ ملک میں ہونے والے بے اعتنائی پر افسوس کا اظہار بھی کردیا-
انعام بٹ کا شکوہ جائز ہے کیوں کہ ہم نے اپنے پہلوانوں کو آج تک دیا ہے کیا ہے، کچھ بھی تو نہیں اور تو اور ہم انہیں مفت کی پذیرائی دینے کو تیار بھی نہیں ہیں- انعام پچھلے ہفتے ترکی سے ورلڈ بیچ گیمز میں گولڈ میڈل جیت کر جب وطن واپس لوٹے تو ائیر پورٹ پر ان کو لینے کے لیے نہ تو کوئی حکومتی رکن تھا اور نہ ہی سپورٹس بورڈ کا کوئی عہدیدار-انعام کا شکوہ تو بنتا ہے کیوں کہ اگر ہماری کرکٹ ٹیم بنگلہ دیش یا پھر کسی بھی چھوٹی ٹیم کو شکست دے کر آئے تو ائیرپورٹ وزرا اور سپورٹس کے چاپلوسی عہدیداروں سے بھر جاتے ہیں اور تو اور عوام کا ایک مجمہ بھی امنڈ آتا ہے اور دوسرا کوئی کھلاڑی دنیا بھی فتح کرلے تو یہ فتح ہمیں فتح ہی نہیں لگتی-انعام کا کہنا ہے کہ وہ آج جس مقام پر ہیں اس میں ان کی ذاتی محنت اور ریسلنگ فیڈریشن کے سیکریٹری ارشد ستار کی کاوشیں ہیں، حالات چاہے جیسے بھی ہوجائیں وہ پاکستان کے لیے جو کچھ کر سکتے ہوئے کرتے رہیں گے، ایک کھلاڑی ہار سے اتنا دلبرداشتہ نہیں ہوتا جتنا اسے اپنوں کی بے اعتنائی کردیتی ہے- بہرحال جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ ایک طرف اب ہم نے ٹوکیو اولمپک 2020 کی تیاری کرنی ہے-انعام نےپاکستان کے ٹوکیو اولمپک میں پاکستان کے میڈل جیتنے کے حوالے سے ایک پلان پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف اپنی ہی بات نہیں کررہے، ان کے علاوہ بھی کچھ کھلاڑی جیسے ویٹ لفٹر نوح بٹ، طلحہ طالب، جولین تھرو اتھلیٹ ارشد ندیم، کراٹے سٹار سعدی عباس، ویٹ لفٹر محمد بلال اور عنایت اللہ ہیں جن پر اگر ہم دو سال محنت کرلیں تو اولمپک میں پاکستان کے لیے میڈلز لاسکتے ہیں-"پاکستان سپورٹس بورڈ کو چاہیے کہ ان کی ٹریننگ کے لیے مخصوص بجٹ مختص کردے جس میں سے انہیں غیرملکی ٹریننگ کے لیے بھی بھیجا جائے۔ بھارت ہو یا دنیا کے دوسرے ملک وہ اولمپک کے لیے چار سالہ منصوبے بناتے ہیں اور پھر ان کے مطابق کھلاڑیوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں بدقستمی یہ ہے کہ اگر کوئی انٹرنیشنل گیمز ہونے ہوتے ہیں تو اس سے ایک دو ہفتے پہلے کیمپ لگایا جاتا ہے-"اپنے حوالے سے بات کرتے ہوئے انعام بٹ کا کہنا تھا کہ ریسلنگ ایک ایسا کھیل ہے جس میں بہتری کے لیے اکیلے محنت کی بجائے ایک اچھے پارٹنر پر بھروسہ کرنا پڑتاہے- جب تک میں دنیا کے بہترین پہلوان سے نہیں کھیلوں گا اس وقت تک میرے کھیل مزید بہتر نہیں ہوگا، اس لیے میری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ میرے لیے روس، جارجیا یا ایران میں ٹریننگ کا بندوبست کرئے اگر اولمپک کی تیاری کے لیے مجھ پر ایک کروڑ خرچہ آتا ہے تو میں اس میں سے آدھے خود دینے کو تیار ہوں-” ہمارے ملک میں کرکٹ کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہےاور دوسرے کھیلوں کے بارے میں تو کوئی جانتا بھی ہیں- ہمیں اس دوہرے معیار کو ترک کرنا ہوگا، اگر ایسا نہ کیا اولمپک تو دور ہم ساؤتھ ایشین گیمز میں میڈل جیتنے سے بھی جائیں گے-"