قومی کھیل ہاکی کا گرتا معیار،قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کمیٹی نے بڑا فیصلہ کرلیا

اسلام آباد(سپورٹس لنک رپورٹ)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کے چیئر مین آغا حسن بلوچ نے اگلے اجلاس میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے عہدیداروں کو بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کی ہمارا قومی کھیل ہے جو کہ زبوں حالی کا شکار ہے،ان کےفنڈز کا بھی آڈٹ کروائینگے اور اگلے اجلاس میں ان کے عہدیداروں کو بھی طلب کیا جائیگا، کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کو بھی فوکس کرینگے،تمام کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کو مناسب سہولیات ملنی چاہیئں۔قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگلے اجلاس میں ایجنڈے کی کاپی پانچ روز قبل بھجوا دی جائیگی جبکہ چوروں صوبائی ہیدکوارٹرز میں بھی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کا انعقاد کیا جائیگا تاکہ ان سوبوں کی کھیلوں کی صورتحال کا پتہ چل سکے۔انہوں نے کہا کہ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے جو کہ زبوں حالی کا شکار ہے،ان کےفنڈز کا بھی آڈٹ کروائینگے اور اگلے اجلاس میں ان کے عہدیداروں کو بھی طلب کیا جائیگا۔بعد ازاں کرکٹ ،سکواش اور دیگر کھیلوں کے سربراہوں کو بھی بلائینگے ۔ہم نے کھیلوں کو ترقی سے ہمکنار کرنا ہے،کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کو بھی فوکس کرینگے۔تمام کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کو مناسب سہولیات ملنی چاہیئں جبکہ اراکین کی تجاویز پر عملدرآمد کیلئے اقدامات کرینگے۔وفاقی وزیر آئی پی سی اگلے اجلاس میں اپنی حاضری یقینی بنائیں۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کا اجلاس پاکستان سپورٹس کمپلکس اسلام آباد میں چیئر مین آغا حسن بلوچ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔اجلاس میں کمیٹی کےاراکین اقبال محمد علی خان،محبوب شاہ،محمد افضل کھوکھر،رشید احمد خان،چوہدری ذوالفقار علی بھنڈر،گل داد خان،ذوالفقار علی بہن ،گل ظفر خان،محمد ہاشم نوتزئی،علی زاہد،شاہدہ رحمانی، روبینہ جمیل،شاہین ناز سیف اللہ،نصیبہ چنا اور منورہ بی بی بلوچ کے علاوہ سیکرٹری آئی پی سی اکبر حسین درانی اور ڈپٹی سیکرٹری فیاض الحق کے علاوہ ڈپٹی ڈی جیز پی ایس بی محمد اعظم ڈار ،آغا امجد اللہ،ملک امتیاز حسین اورنے شرکت کی۔ریاض الحق نے قائمہ کمیٹی کے اراکین کو پاکستان سپورٹس بورڈ کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان سپورٹس بورڈ کرکٹ کے علاوہ تمام کھیلوں کی دیکھ بھال کرتا ہے ۔39کھیلوں کی فیڈریشنز کا پی ایس بی کیساتھ الحاق ہے ۔سیکرٹری آئی پی سی اکبر حسین درانی نے بتایا کہ وزارت آئی پی سی وزارت خارجہ و داخلہ کی مشاورت سے کھلاڑیوں کو غیر ملکی مقابلوں کیلئے این او سی فراہم کرتی ہے۔کھیلوں کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے اس لیئے ہم صوبوں کی رضا مندی کے بغیر کوئی بھی ایونٹ نہیں کروا سکتے،پی ایس بھی ہر کوارٹر میں فیڈریشنز کو فنڈز فراہم کرتا رہا ہے ،اب ہم نے پہلے 54کروڑ روپے کا آڈٹ کروانا ہے ۔کھیلوں کی ٹاسک فورس نے آڈٹ مکمل ہونے تک فیڈریشنز کو فنڈز نہ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے ۔فنڈز نہ ملنے سے ایک گیپ پیدا ہوگا،ہم ان کے تربیتی کیمپ لگانے کو تیا ہیں۔چوہدری ذوالفقار علی بھنڈر نے کہا کہ ہمارا سیلکشن کا معیار نہیں ہے،اس میں سیاسی لوگوں کو بھی شامل ہونا چاہیئے۔فٹبال ،کبڈی اور والی بال سمیت دیگر کھیلوں کو بھی ترجیع دی جائے،فنڈز ضائع ہو رہے ہیں۔محمد افضل کھوکھر نے کہا کہ کھیلوں کیلئے فنڈز ضروری ہیں،گن کلب کی زمین کا کیا معاملہ ہے؟سیکرٹری آئی پی سی نے بتایا کہ پی ایس بی کے 147ایکڑ زمین ہے ۔سیف گیمز کے دوران ہم نے سی ڈی اے کی 60ایکڑ زمین پر قبضہ کرکے وہاں پہ شوٹنگ رینج قائم کر دیا،بعد ازاں وہاں پہ گن کلب قائم ہو گیا،29ایکڑ زمین پر تعمیراتی کام ہوا ہے،چیف جسٹس نے اس حوالے سے سوموٹو ایکشن لیا ۔ یہ جگہ ہمارے پاس ہے اور ڈی جی پی ایس بی اس کلب کے چیئر مین ہیں۔اس بارے میں سمری وزیر اعظم کے پاس ہے۔محبوب شاہ نے کہا کہ ہاکی کا برا حال ہے،کبڈی،فٹبال اور والی بال کی ٹیموں کی تربیت کی ضرورت ہے۔اقبال محمد علی خان نے کہا کہ ہاکی کا بیڑا غرق ہو چکا ہے،شہباز سینئر کو واپس بلایا گیا ہے،ہاکی کے صدر کو کمیٹی میں بلایا جائے ۔جن فیڈریشنز کی کارکردگی بہتر ہے انہیں زیادہ فنڈز دیئے جائیں۔ہاکی اور کرکٹ کے بارے میں الگ الگ اجلاس بلائے جائیں۔ٹاسک فورس اپنی تجاویز وزیر آئی پی سی کو بھجوائے۔سیکرٹری آئی پی سی نے کہا کہ ٹاسک فورس کی ہدایت کے مطابق آڈٹ ہونے تک کسی بھی فیڈریشنز کو فنڈز نہیں دے سکتے ۔تمام کھیل ٹاسک فورس کے ہاتھ میں دے دیئے گئے ہیں۔شاہین ناز سیف اللہ نے کہا کہ بلوچستان میں کھیلوں کیلئے زمین موجود ہے ،ان پر گراونڈ بنائے جائیں۔ نصیبہ چنا نے کہا کہ دیہی علاقوں سے نوجوان ٹیلنٹ سامنے لایا جائے۔شاہدہ رحمانی نے کہا کہ سفارش کلچر کو پروموٹ کرکےحقدار کھلاڑیوں کا حق مارا جاتا ہے۔گل ظفر خان نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں سپورٹس کمپلکس بننے چاہیئں ،ہمارے علاقے میں سپورٹس کمپلکس چار لاکھ کی آبادی والے علاقے کی بجائے 75ہزار آبادی والے علاقے میں بنایا جا رہا ہے۔ٹیلنٹ میں شفافیت لائی جائے،صرف ڈیروں پر بیٹھ کر سلیکشن نہیں ہونی چاہیئے۔رشید احمد خان نے کہا کہ فنڈز نہیں ملینگے تو رزلٹ کیسے آئینگے۔ہمیں اپنی سفارشات حکومت کو بھجوانی ہونگی تاکہ نامکمل منصوبے مکمل ہو سکیں۔سہیکرٹری آئی پی سی نے کہا کہ نارووال کی مثال آپ کے سامنے ہے۔اس کا کیس نیب کے پاس ہے۔اس منصوبے پر اڑھائی ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں اور یہ منصوبہ ابھی مکمل نہیں ہوا اور اس منصوبے کیلئے مزید سات ارب روپے کی ضرورت ہے۔اس کمپلکس کو پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے چلایا جائے یا اسے فیڈریشنز کے حوالے کر دیا جائے۔

error: Content is protected !!