پاکستانی فٹ بال میں گروپ بندی کا شاخسانہ——— معاشی بدحالی کا پراونہ

آغا محمد اجمل، سابقہ میڈیا مینجر پاکستان فٹ بال فیڈریشن
پاکستانی فٹ بال جو کہ1994 میں فیفا ورلڈ رینگنگ میں142ویں نمبر پر تھا گروپ بندی اور ’اچے شملے (Bigwigs)کی وجہ سے اب 2019 میں204 ویں نمبر پر آگیا ہے۔پاکستان میں فٹ بال کی زبوں حالی اور تنزلی کی بنیادی وجہ ا’وچے شملے کی کرسی صدارت پر براجمان ہونے کی فطری خواہش اور اس کے لیے کی جانے والی حرکات کو اپنے لیے جائز قرار دینے میں ہے۔
پاکستان میں فٹ بال کی تنزلی میں اس وقت شدتّ آئی جب2014 میں گروپ بندی کے عفریت نے پر پھیلانے شروع کردیے دیے۔ میں ان دونوں گروپوں میں جاری اختلافات کے سیاق و سباق میں نہیں پڑنا چاہتالیکن اس سے فٹ بال سے وابستہ کھلاڑیوں، کوچز، ٹرینرز ، پروفیشنلز اور سٹیک ہولڈرزز کو نا قابل تلافی معاشی ، معاشرتی اور قومی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
ٖپاکستان کے چھتیس (36000) ہزار خاندانوں کی معاش کا سلسلہ فٹ بال کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ لائن مین سے لیکر اعلیٰ پروفیشنلز اس گروپ بندی کا براہ راست شکار ہو رہے ہیں۔ فٹ بال کی قومی سطح پر لیگ اور ٹورنا منٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو شدید مالی مشکلات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔اس گروپ بندی کی وجہ سے اس کھیل سے وابستہ افراد کو اگر اپنے معاشی زرائع کے تسلسل میں پائیداری کے لے کسی سٹیک ہولڈرز سے منسلک ہونا پڑتا ہے تو مخالف گروپ اس فرد پر اپنے مخالف گروپ کا ایجنٹ ہونے کا لیبل چسپاں کر دیتا ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ گروپ اس کھلاڑی، کوچ، ٹرینرز، پروفیشنل کے لیے اپنے دروازے بند کردیتا ہے اور اگر وہ اس کو لینا بھی چاہے تو اس کے گروپ کے اندرونی دباو ء بھی اس کے فیصلے کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے۔جس کی وجہ سے ان افراد وکو بہ امرمجبوری اپنی صلاحیتوں کو کسی ایک گروپ کی لیے مختص کرنا پڑتاہے۔ جس کا فائدہ ان گروپوں کے باوا آدموں کو ہی پہنچتا ہے۔
یہاں پر میں کسی اور کی مثال دینے کی بجائے اپنی مثال دینا چاہوں گا۔ بخثیت میڈیا مینجرپاکستان فٹ بال فیڈریشن، میں نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے فٹ بال کو پرنٹ ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر کرکٹ کے ہم پلہ کردیا تھا۔جس کا اعتراف پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابقہ جنرل مینجر میڈیا ندیم سرور نے بھی کیا تھا۔ پی ایف ایف سے استیفعٰی دینے کے بعد میں نے اپنی میڈیا فرم بنائی او ر پاکستانی فٹ بال کی سرگرمیوں کو قومی اور بین الااقوامی سطح پراجاگر کرنا شروع کر دیا۔ لیکن اس گروپ بندی کی وجہ سے مجھ پر بھی ایک گروپ کا لیبل چسپاں کر دیا گیا ہے اور دوسرا گروپ میرے ساتھہ کسی قسم کی ڈیل کرنے میں ہچکچاتا رہتا ہے۔ اگر لا محالہ میرے ساتھ ڈیل کرنا بھی چاہے تو مجھے اس کے مخالف گروپ کے ساتھ جاری لیگل کنٹڑیکٹ کو ختم کرنے کے فرعونی فرمان کابھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مجھے انتہائی دلی دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اگر ان گروپوں کے درمیان رسہ کشی اور چپلقس مزید طول پکڑ گئی تو فیفا پاکستان پر پابندی لگانے میں ذرا سی بھی دیری نہیں کرے گااور یہ’ اچے شملے والے ہی پاکستان کے چھتیس ہزار خاندانوں کو معاشی بدحالی کیگمبھیر سمندر میں دھکیلنے کے قصور وار اورفٹ بال سے وابستہ کھلاڑیوں، کوچز، ٹرینرز ، پروفیشنلز اور سٹیک ہولڈرززکے معاشی قتل کے مجرم گردانے جائیں گے۔

error: Content is protected !!