پشاور(سپورٹس رپورٹر)کھیل سے مراد ایسا کام ہے جس سے انسان کی ذہنی ،جسمانی نشونما ہو،کھیل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو طلبہ بچپن سے کھیل کود کے زیادہ شوقین ہوتے ہیں اور اپنی روزمرہ زندگی میں کھیل کیلئے وقت ضرور نکالتے ہیں کھیل سے انکے جسمانی اعضا ء کی ورزش ہوتی رہتی ہے جو ان کی بہترین نشونما کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ،کھیلوں کی وجہ سے ہمارا جسم تندرست و توانا رہتا ہے اگر کھیل نہ ہو تو جسم لاغر نحیف ہو جاتا ہے ۔اسی لئے مشہور ہے کہ جس ملک میں کھیل کے میدان آباد ہونگے تو انکے ہسپتال ویران ہو نگے اور جس ملک کے کھیل کے میدان ویران ہونگے تو انکے ہسپتال آباد ہونگے،اسلام نے پاک اور بامقصد ورزش ، کھیل جائز قرار دیا ہے بلکہ ایسی ورزش اور کھیلوں کی ترغیب دی گئی ہے جو جسمانی ،غیر جسمانی قوت کے حصول کی دعوت دی ہے ۔قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ تم انکے مقابلے کیلئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو،اللہ پاک نے مختلف ادوار میں اپنے نیک بندوں کو انسانیت کا رہنما بنا کر بھیجا تو انہیں علم کیساتھ ساتھ جسمانی قوت بھی عطا فرمائی ،اسی طرح اللہ تبارک وتعالی نے نماز کے حرکاوت سکنات میں بھی جسمانی ورزش جیسا طریقہ وضع کیا ہے ،نبی اکرم حضرت محمد ﷺخود بھی خوبصورت قوی جسم کے مالک تھے۔
تیراندازی،تیراکی،نیزہ بازی،کشتی ،کبڈی اور دوڑ جیسے کھیل نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں بہت پسندیدہ تھے،ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو سکولز میں مختلف گیمز کرائی جاتی ہیں تاکہ طلبہ کی کردار سازی کیساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی نشونما ممکن ہو،یہ بات ثابت ہے کہ صحت مند بچے ہی تعلیمی میدان میں نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں کھیل ہماری زندگی میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کیونکہ کھیل ہمارے جسم چستی،پھرتی اور قائدانہ صلاحتیں پیدا کرتی ہے اس لئے کھیل کو روح کی غذا کہا جاتا ہے کیونکہ کھیل میں جسم کی ذہنی ،جسمانی مشقت ہوتی ہے ،سابق ادوار میں سکول ،کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر کھیلوں کو بہت اہمیت دیاکرتے تھے لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی سرگرمیاں ختم ہوکر رہ گئی اوربعض اداروں میں یہ سلسلہ برائے نام چل رہاہے،حالانکہ دیگر ممالک میں تعلیمی اداروں کی سطح پر بہت ترجیح دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ کھیلوں کے میدانوں میں وہ قومیں ہم سے بہت آگے جاچکی ہیں۔ہمار ے ملک پاکستان میں کھیل کے میدان اور پارکس کی تعداد بہت کم ہے جس کیوجہ سے اکثر نوجوان فارغ اوقات میں منفی سرگرمیوں کا شکار ہیں ،ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت شہروں میں آبادی کے لحاظ سے پارکس اور کھیل کے میدان بنائے جس سے نوجوان منفی سرگرمیوں کی بجائے تفریحی کھیلوں میں باقاعدہ حصہ لینے کا موقع میسر ہو ،تاکہ صحت مند ،باشعور معاشرہ تشکیل پاسکے۔آجک کے دور میں کرکٹ،فٹ بال،والی بال ،ہاکی اور دیگر کھیلوں میں زیادہ ترنوجوان کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں،لیکن اس کیساتھ ہی جمناسٹک کھیل میں بھی نوجوان دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں
اس حوالے سے خیبر پختونخواجمناسٹک ایسوسی ایشن کے سیکرٹری محمد راجہ سے رابطہ کیا تو انکاکہناتھاکہ اس میں کوئی شک نہیں انسانی زندگی میں کھیلوں کی کتنی اہمیت ہے ،لیکن افسوس اس بات ہرہے کہ پاکستان اور خصوصاًخیبر پختونخواکے تعلیمی اداروں میں اس شعبے کو نظر اندازکیاگیاہے اگرسکول لیول سے کھیلوں کو تعلیم کا حصہ بنایاجائے تو انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ہمارے نوجوان بھی جماسٹک کھیل میں دنیامیں ایک بہتر شناخت پیداکرسکیںگے بلکہ ہمارا معاشرہ صحت منداور باشعور لوگوںپر مشتمل ہوگا،جہاں نہ لڑائی جھگڑے ہونگے اور نہ ہی دغہ بازی،ملاوٹ اور کرپشن کاکوئی نام ہوگا،انہوںنے کہاکہ ہر کھیل کی اپنی اہمیت ہوتی ہے لیکن دنیامیں مارشل آرٹس اور جمناسٹک کو بہت پذیر ائی حاصل ہے ،جبکہ جمناسٹک کھیل چست وچوبند رہنے کی نشانی ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل کے بچے جمناسٹک میں بھی کافی دلچسپی لے رہے ہیں،جنہیں قیوم سٹیڈیم میں تربیتے دیتے ہیں بلکہ چارسدہ،بنوں،مردان اور سوات کے مختلف اضلاع میں ضلعی ایسوسی ایشن کو چز بچوں کو کوچنگ درہے ہیں،اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں انشاء اللہ خیبر پختونخوامیں جمناسٹک کا مستقبل روشن ہے ،انہوںنے کہاکہ انہوں نے کہاکہ وہ بچپن سے اس کھیل وابستہ ہوئے وہ جب 13سال کے تھے تو جمناسٹک کھیلنے کا آغازکیا، تاہم وہ تائیکوانڈوکا بھی کھیلتے رہے اور اس طرح دونوں شعبوں میں خودکومنوایا،1982کے دوران انہوںنے پشاور میں تائیکوانڈوکے کئی مقابلوں کیساتھ ساتھ کوہاٹ میں منعقدہ صوبائی تائیکوانڈوچمپئن شپ میں سلور میڈل لیا،اسکے علاوہ جمناسٹک اورتائیکوانڈومیں ضلعی ،صوبائی اور نیشنل کے کئی میڈلز جیتے ،انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ 1989کوشاہدرہ لاہورمیں منعقدہ نیشنل جمناسٹک چمپئن شپ میں انہوںنے جب برائونزمیڈلز اپنے نام کیاتھاتو اس شاندار پرفارمنس پر پاکستان جمناسٹک فیڈریشن کے عہدیداروں اور دیگر حکام نے خوب حوصلہ آفزائی کی،پاکستان جمناسٹک فیڈریشن کے عہدیداروں کی مشاورت سے کوچنگ کے شعبے کو اپنایااور خیبر پختو نخوامیں جمناسٹک کے فروغ کیلئے عملی کام کرنے کیلئے ہم نے 1990میں صوبائی جمناسٹک ایسوسی ایشن قائم کیا،اس وقت کے ڈائریکٹر انفارمیشن اجمل ملک کوایسوسی ایشن کا صدر اعجاز احمد کو سیکرٹری جنرل سمیت دیگر کابینہ عمل میں لایاگیا،اور باقاعدہ صوبے میں جمناسٹک کے فروغ کیلئے کام کا ابتداء ہوگیا،جسکے بعد مختلف شخصیات نے بطور صوبائی جمناسٹک ایسوسی ایشن کے کھلاڑیوں کی سرپرستی کی، 1994میں انہوںنے آئی او سی منیجمنٹ وکوچنگ کورس کیا،اسکے بعد 2019کو لاہور میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی نگرانی آئی او سی کا دوبارہ ریفریشر کورس کیااور اس طرح انہوںنے اپنی زندگی سپورٹس کیلئے وقف کرتے ہوئے اب بطور سیکرٹری صوبائی ایسوسی ایشن وکوچ صوبے میں جمناسٹک کی ترقی کیلئے کام کرنے اور نچلی سطح پر بہترین کھلاڑیوں کو تلاش کرکے سامنے لانے کا عہد کیاہے اور انشاء اللہ ان کوششوں سے کافی حد تک کامیابی حاصل ہوئی اور کئی بہترین جماسٹ کو تیار کیاہے ،اگر انکی حکومتی سطح پر سرپرستی کی گئی تو ملک وقوم کا نام روشن کرسکیںگے۔ محمدراجہ نے کہاکہ ہمیں اس وقت تک اچھے کھلاڑی نہیں ملیںگے اور آگے نہیں جاسکتے جب تک سکول،کالج اور یونیورسٹیوں کی سطح پر کھیلوں کو فروغ نہیں دیتے اور یہ کام حکومت اور محکمہ تعلیم ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں جمناسٹک سمیت تمام کھیلوں کو توجہ دیں ،انہوںنے اس عزم کا اظہار کیاکہ اگر سکول اور کالج کی سطح پر جمناسٹک کو توجہ دیتے ہیں وہ اور انکے کھلاڑی سکول اور کالجز میں مفت کوچنگ دیںگے۔