(محمد ثاقب الرحمٰن ۔ ٹوکیو جاپان)
ٹوکیو اولمپکس میں نجمہ پروین کی ہار کے بعد وفاقی وزیر کھیل فہمیدہ مرزا نے کھل کر ٹی وی انٹرویومیں میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو ناکامیوں اور اتھلیٹس کی بری کارکردگی کا ذمہ دار قرار دیا۔ میڈیا میں بھی پاکستان اولمپک کمیٹی کے صدر عارف حسن کو تنقید کا سامنا بنایا گیا۔ جبکہ ایک سوشل میڈیا کمپیئن کے ذریعے ملک میں کھیلوں کی تمام تر ناکامیوں کا ذمہ عارف حسن کے سترہ سالہ دور کو قرار دیا گیا۔ درحقیقت پاکستان اولمپک کمیٹی کو اس طرح تنقید کا نشانہ بنانا بالکل بھی ٹھیک نہیں تھا۔ پاکستان اولمپک کمیٹی کے بروقت اقدامات کی بدولت پاکستانی اتھلیٹس ٹوکیو اولمپکس میں شرکت کرنے کے قابل ہوئے اور ان کے لئے ٹکٹوں کا بندوبست ہوسکا۔
اس سے پہلے ذرا دنیا کے منظر نامے پر نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ خود میزبان ملک جاپان کے لئے بھی اولمپکس کا انعقاد ایک بڑا چیلنج ثابت ہوا۔ اسکی سب سے بڑی وجہ دنیا میں گذشتہ برس کورونا وائرس کی وجہ سے یہ بڑے کھیل ایک سال کے لئے ملتوی کردئیے گئے۔ ان کھیلوں کا انعقاد ایک ہنگامی نوعیت کی حیثیت رکھتا تھا جب اس میں غیر ملکی شائقین اور پھر بعد میں جاپان کے مقامی شائقین تک کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ ایک سال کی تاخیر سے بہت سے اتھلیٹس کی پرفارمنس بری طرح متاثر ہوئی۔ بہت سے اتھلیٹس گیمز میں شرکت نہ کرسکے اور ان اتھلیٹس کے کوچز اور آفیشلز بھی کورونا کا شکار ہوئے۔ ایسی ہنگامی حالات میں پاکستان اولمپکس کمیٹی نے اتھلیٹس اور آفیشلز کی ٹوکیو اولمپکس میں شمولیت کو یقینی بناکر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اولمپکس میں ہار جیت نہیں بلکہ شرکت کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہی اولمپزم ہے۔ عارف حسن کے دور کے بارے میں باتیں کرنے والے شائد اولمپزم کے بنیادی چارٹر سے ناواقف ہیں۔ پاکستان اولمپک کمیٹی سیاسی اتار چڑھاوٴ کے باوجود ایک احسن اور مثبت انداز سے کام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ کھلاڑیوں اور اتھلیٹس کی تربیت کا کام صرف اولمپک کمیٹ کا نہیں بلکہ ملک میں کام کرنے والی کھیلوں کی فیڈریشنز اور سپورٹس اداروں کی مالی و تکنیکی سہولیات کی فراہمی پر منحصر ہے۔ ؑعارف حسن کے کردار پر کیچڑ اچھال کر پاکستان میں کھیلوں کو بدنام کرنے کی ایک منظم سازش کی گئی ہے۔ اگر بالفرض ایسے اقدامات سے پاکستان اولمپک کمیٹی پر پابندی عائد ہوگئی تو آئندہ کے لئے اولمپک گیمز میں پاکستانی جھنڈے کا نام و نشان تک ختم ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی تمام فیڈریشنز، اتھلیٹس اور کھیلوں سے پیار کرنے والے لوگوں کو پاکستان اولمپک کمیٹی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیئے اور حکومت اپنی کوتاہیاں مان کر اس ادارے کیساتھ مکمل تعاون کرے۔ عارف حسن اور انکی ٹیم کے تجربات سے پاکستان کو فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ یہ انکے اقدامات ہی تھے کہ آج طلحہ طالب اور ندیم ارشد جیسے ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ پاکستان میں میڈیا کے مثبت کردار کی اشد ضرورت ہے تاکہ اچھے کام کو آگے لانے میں معاونت مل سکے۔
کھیلوں کے زوال کی وجوہات
اتھلیٹس کی ایسی کارکردگی پاکستان میں سپورٹس کی صورتحال کا پول کھول رہی ہیں۔ عالمی سطح کے اس ایونٹ کی تیاری کے لئے سنجیدگی سے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے گئے؟ ملک میں صرف ایک کھیل کرکٹ کا چرچا ہے۔ اولمپکس میں کھیلے جانے والے کھیل جن میں دنیا کے دوسو سے زائد ممالک شرکت کرتے ہیں، میں پاکستان کی کارکردگی کیوں اتنی بری ہے؟ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پرائیویٹ سکول ایسے کھیلوں کے زوال کا بھی سبب بنے ہیں جہاں ہاکی، اتھلیٹکس اور دیگر کھیلوں کا ذکر بھی نہیں ملتا۔ ملک میں سالانہ سپورٹس فیسٹیول بس فنڈز اور چندہ حاصل کرنے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ سفارش کلچر نے اتھلیٹس کے ٹیلنٹ کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔ جو اتھلیٹس ہیں انکو نوکریوں سے محروم کردیا گیا اور جن میں کئی ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اس دنیا سے کوچ کرچکے ہیں۔ لینڈ مافیا نے کھیلوں کے میدانوں پر بڑے بڑے پلازے اور کالونیاں تعمیر کردی ہیں جن کے کیسز عدالتوں میں سالہا سال التوا کا شکار رہتے ہیں۔ خواتین میں کھیلوں کے فروغ کے لئے عوامی سطح پر کوئی شعور نہیں دیا گیا۔ کھیلوں کے زوال سے نہ صرف پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے بلکہ بحثیت قوم ہم ایک صحت مند معاشرے سے بھی محروم ہیں جہاں ہمارے نوجوان منشیات کی جانب راغب ہورہے ہیں اور سٹریٹ کرائمز میں نوجوان ایڈوانچر تلاش کررہے ہیں۔ ملک میں کھیلوں کے فروغ کے لئے مذہبی سکالرز کا کردار بھی اہم ہے جو نوجوانوں کو صرف رنگ برنگی ٹوپیاں پہننانے میں مگن رہتے ہیں یا انکا مقصد صرف چندے حاصل کرنا ہے۔ پاکستان میں ندیم ارشد اور طلحہ طالب کی مثال موجود ہے جس نے اپنی مدد آپ کے تحت ذخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اولمپکس میں بہترین کارکردگی دی۔
نیشنل اولمپک کمیٹی کا کردار:
انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی ویب سائیٹ پر موجود نیشنل اولمپک کمیٹی کے کردار کی تعریف یوں ہے کہ ان کا کردار اولمپک گیمز میں اپنے متعلقہ ممالک کی نمائندگی کو یقینی بنانا ہے جس کے تحت وہ اتھلیٹس اور آفیشلز بھیجنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کے بھی ذمہ دار ہیں کہ اپنے اپنے ممالک میں وہ کھیلوں اور تعلیم کے شعبوں میں اولمپزم کے بنیادی اصولوں اور اقدار کو فروغ دیں گے۔ اس وقت دو سو چھ ممالک کی این او سیز انٹرنینشل اولمپک کمیٹی کے ساتھ ملحق ہیں جو آئندہ کے ہونے والی اولمپک گیمز کے میزبان ممالک کے حق میں حق رائے دہی بھی استعمال کرتے ہیں۔ پاکیستان میں اولمپک کمیٹی کو یکم جنوری 1948 سے تسلیم کیا گیا ہے۔ لیفٹننٹ جنرل سید عارف حسن اسکے صدر جبکہ محمد خالد محمود اسکے سیکریٹری ہیں۔