73 سال سےشراب پر لگی پابندی ختم یا برقرار؟ سعودی حکومت کا اہم موقف آگیا
73 سال سےشراب پر لگی پابندی ختم یا برقرار؟ سعودی حکومت کا اہم موقف آگیا
ویب ڈیسک: سعودی عرب کے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے پیر کے روز میڈیا کی ان خبروں کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا کہ مملکت اسلام کے مقدس ترین مقام ہونے کے باوجود 73 سالہ شراب پر عائد پابندی کو ختم کرنے جا رہی ہے۔
سعودی حکومتی ترجمان نے ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ مملکت اپنے موجودہ قوانین پر قائم رہے گی اور شراب پر عائد پابندی میں کسی قسم کی نرمی یا تبدیلی کا ارادہ نہیں رکھتی۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں ’’ویژن 2030‘‘ کے تحت ملک میں سماجی اور اقتصادی اصلاحات کا عمل جاری ہے، جس میں سیاحت اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ سعودی عرب میں 1952 سے شراب پر مکمل پابندی عائد ہے، اور اس فیصلے کا مقصد ملک کی اسلامی اقدار اور روایات کی حفاظت کرنا ہے۔
حالیہ دنوں میں سعودی عرب نے ریاض کے سفارتی علاقے میں غیر مسلم سفارتکاروں کے لیے محدود مقدار میں شراب فروخت کرنے والی دکان کھولی تھی، جسے ملک میں شراب پر عائد پابندی میں نرمی کے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
تاہم، حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام صرف غیر مسلم سفارتکاروں کے لیے تھا اور اس کا مقصد غیر قانونی شراب کی تجارت کو روکنا تھا، نہ کہ شراب کی فروخت کو عام کرنا ہے۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر یہ خبر گردش کررہی تھی کہ سعودی حکومت نے نے 73 سال سے شراب کی فروخت پر لگی پابندی ختم کردی۔
زیرگردش افواہ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ نئی پالیسی کے تحت ملک بھر میں تقریباً 600 مقامات پر شراب کی اجازت ہوگی، لیکن یہ اجازت محدود اور سخت ضوابط کے تحت ہوگی۔
زیادہ تر یہ مقامات لگژری ہوٹلز، ریزورٹس، اور سیاحتی علاقوں پر مشتمل ہوں گے، جن میں نیوم، سندالہ آئی لینڈ، اور ریڈ سی پراجیکٹ شامل ہیں۔ گھروں، دکانوں اور عوامی جگہوں پر شراب کی فروخت یا استعمال کی اجازت نہیں ہوگی۔
شراب کی فروخت صرف لائسنس یافتہ اور منظور شدہ مقامات پر ہوگی جہاں تربیت یافتہ عملہ ہی شراب پیش کرے گا، اس حوالے سے نگرانی کے سخت انتظامات کیے جائیں گے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔