پاکستان ہاکی کی نئی امید اور نوجوان کھلاڑیوں کا جذبہ، کوچ کی حکمت عملی۔۔۔ فیڈریشن کا امتحان ۔
تحریر ; کھیل دوست ; شاھدالحق
کوالالمپور، ملائیشیا میں منعقدہ نیشنز کپ 2025 میں پاکستان ہاکی ٹیم کی مجموعی کارکردگی نے شائقین کے دل جیت لیے۔ سیمی فائنل میں پاکستان نے فرانس جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف ناقابلِ یقین کھیل پیش کیا۔
نوجوان کھلاڑیوں کا جذبہ، جارحانہ اٹیک، اور گول کیپر کی شاندار پرفارمنس نے پاکستان کو پینلٹی شوٹ آؤٹ میں فتح دلائی۔ اس میچ میں صفیان خان کی ڈریگ فلک صلاحیت نے فرانس کو دباؤ میں رکھا
جبکہ مرتضیٰ یعقوب اور عبدالرحمٰن نے فیلڈ گولز کے ذریعے اپنا لوہا منوایا۔ حنان شاہد نے آخری لمحات میں پینلٹی کارنر پر شاندار گول کر کے ٹیم کو میچ میں واپس لایا۔
سیمی فائنل میں فتح کے بعد فائنل میں پاکستان کا مقابلہ نیوزی لینڈ سے تھا۔ آغاز میں ٹیم نے بھرپور کھیل پیش کیا لیکن دوسرے ہاف میں کھلاڑیوں کی توانائی میں واضح کمی دکھائی دی۔
ٹیم کے ذہنی و جسمانی استقامت کا امتحان اس وقت ہوا جب مخالف ٹیم نے دباؤ بڑھایا، مگر ہمارے کھلاڑی اس کا جواب نہ دے سکے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں عالمی معیار کی فٹنس اور ذہنی تربیت کی کمی نمایاں ہو گئی۔
قومی ٹیم کے کوچ طاہر زمان کی حکمت عملی نے ثابت کیا کہ وہ پاکستان کے سب سے اہل اور باصلاحیت کوچ ہیں۔
انہوں نے نہ صرف نوجوانوں پر اعتماد کیا بلکہ جدید ہاکی کی ٹیکنیکل باریکیوں کو استعمال کر کے ٹیم کو فائنل تک پہنچایا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے ساتھ ٹیکنیکل اسٹاف میں میرٹ پر منتخب فزیو، ٹرینرز اور اسپورٹس ڈاکٹروں کو شامل کیا جائے تاکہ وہ ایک مضبوط یونٹ کی صورت میں ٹیم کو بہتر بنائیں۔
اس کامیابی کے باوجود کچھ تلخ حقائق بھی سامنے آئے۔ ذرائع ابلاغ نے نشاندہی کی کہ کھلاڑیوں کو یومیہ الاؤنس فراہم نہیں کیے گئے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے فنڈز کی کمی کو جواز بنایا،
جبکہ ڈی جی اسپورٹس بورڈ نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 90 لاکھ روپے کے ہوائی ٹکٹ سمیت مکمل مدد دی گئی تھی، اور فیڈریشن نے خود لکھ کر یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے پاس کافی فنڈز موجود ہیں۔ ڈی جی نے مزید کہا کہ پی ایچ ایف ایک خودمختار ادارہ ہے اور اسے اپنی مالی ضروریات خود پورا کرنی چاہئیں۔
بطور اسپورٹس فٹنس ماہر میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پی ایچ ایف سب سے پہلے "اتحاد” کو ترجیح دے۔ فیصلہ سازی کے لیے صاف دامن، اہل اور وژنری افراد کو شامل کیا جائے۔
کراچی، گو جرا اور خیبر پختونخوا جیسے ہاکی کے مراکز کو کسی بھی قسم کے اندرونی اختلافات کی بنیاد پر نظر انداز نہ کیا جائے۔ گراس روٹ لیول پر ترقی کے لیے ان شہروں میں کوچز، اسکولز اور اکیڈمیز کو فعال بنایا جائے۔
بین الاقوامی سطح پر ثابت شدہ کوچز جیسے رعنا نعیم، عدنان ذاکر اور سلیمان اکبر گولی جیسے ماہرین کو قومی ڈھانچے میں شامل کیا جائے۔ ان کے پاس یورپ میں کامیاب ٹیمیں بنانے کا تجربہ ہے۔ ان کی زیر نگرانی کوچنگ کا باقاعدہ لائسنس سسٹم متعارف کرایا جائے تاکہ ہر سطح پر معیاری کوچز تیار ہوں۔
نوجوان کھلاڑیوں کے لیے ذہنی و جسمانی تربیت کا علیحدہ ڈپارٹمنٹ ہونا چاہیے۔ وی او ٹو میکس، کارڈیو لیول، ہائی انٹینسٹی ٹریننگ اور اسٹریس مینجمنٹ جیسے ماڈیولز ہر کھلاڑی کے لیے لازم کیے جائیں۔ اسپورٹس سائنس پر مبنی کوچنگ سے ہی ٹیم کی کارکردگی کو پائیدار بنایا جا سکتا ہے۔
گراس روٹ ترقی کے لیے پانچ رکنی اسکول ہاکی کا ماڈل متعارف کرایا جائے۔ حکومت ایسے مصنوعی شارٹ پچز کو درآمد کرنے پر ٹیکس استثنیٰ دے اور ملک بھر کے 100 اسکولوں میں اس پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز کرے۔ اس کے ذریعے ہاکی کو عام طلبہ تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
مالی شفافیت، کارپوریٹ اسپانسرز کی شمولیت، ہاکی لیگ، اور جدید میڈیا ٹیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ پی ایچ ایف کو ایک اسپورٹس مارکیٹنگ ایجنسی ہائر کرنی چاہیے جو سوشل میڈیا،
یوٹیوب، انسٹاگرام اور دیگر پلیٹ فارمز پر ہاکی کو نوجوانوں میں مقبول بنائے۔ پاکستان ہاکی کے کھلاڑیوں کی کہانیوں پر مبنی ڈاکومنٹریز اور سیریز بنائی جائیں تاکہ ایک ہیرو کلچر پیدا ہو اور برانڈ اسپانسرز کا اعتماد بحال ہو۔
وفاقی حکومت اور نجی شعبے کو مشترکہ فنڈز مختص کرنے چاہئیں، مگر یہ فنڈز وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا سیاسی تشہیر کے لیے نہیں بلکہ ہاکی کی بقا اور ترقی کے لیے ہوں۔ ایک خصوصی نان پولیٹیکل فنڈ بنایا جائے جس کا استعمال مکمل شفافیت سے ہو۔
یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کر کے تمام گروپس ایک میز پر بیٹھیں، معافی مانگیں، حقیقت کو سمجھیں اور پاکستان ہاکی کے مستقبل کے لیے متحد ہو جائیں۔