باکسنگمضامین

پروفیشنل باکسنگ میں اصلاحات کی ضرورت: عثمان وزیر کی فائٹس پر سوالیہ نشان؟

پروفیشنل باکسنگ میں اصلاحات کی ضرورت: عثمان وزیر کی فائٹس پر سوالیہ نشان؟

ایکسپریس ٹربیون میں چھپنے والے نطاشہ راحیل کی ایک تحقیقی رپورٹ نے پروفیشنل باکسنگ کے چمپیئن عثمان وزیر کی حقیقت چوک چوراہے میں عیاں کر دی ھے۔

جبکہ ایک اسپورٹس فلاحی کارکن اور صحافی کی حیثیت سے میں نے بارہا اس مسئلے کو اپنے یوٹیوب چینل سپوفٹ، اپنے کالمز اور مختلف مضامین میں اجاگر کیا ہے۔

بدقسمتی سے متعلقہ ادارے اور پالیسی ساز اس طرف توجہ دینے سے قاصر ہیں، اور یوں جعلی پروفیشنل فائٹس کو پھلنے پھولنے کا موقع مل رہا ہے۔

پاکستان میں پروفیشنل باکسنگ ایک بار پھر تنازعے کی زد میں ہے، اس بار معاملہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ باکسر عثمان وزیر کے نام نہاد ٹائٹلز کا ہے۔

اگرچہ ان کے ریکارڈ میں 17-0 کی ناقابل شکست کارکردگی درج ہے اور انہوں نے 2024 میں صدارتی تمغہ امتیاز بھی حاصل کیا، لیکن ان کی کامیابیوں کی حقیقت پر سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔

عثمان وزیر دبئی، پاکستان، فلپائن اور خاص طور پر بینکاک، تھائی لینڈ میں جیتے گئے بیلٹس فخر سے دکھاتے ہیں، جہاں فکس فائٹس کے حوالے سے برسوں سے شہرت ہے۔

حال ہی میں انہوں نے انڈونیشیا کے 44 سالہ باکسر، جج اور پروموٹر اسٹیوی اونگن فرڈینینڈس کو ہرا کر ڈبلیو بی سی او پی بی ایف سپر ویلوٹر ویٹ سلور ٹائٹل جیتنے کا دعویٰ کیا۔

مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو ورلڈ باکسنگ کونسل (WBC) اور نہ ہی اورینٹل اینڈ پیسفک باکسنگ فیڈریشن (OPBF) نے اس فائٹ یا ٹائٹل کو اپنی آفیشل ویب سائٹس پر درج کیا ہے۔

باکس ریک، جو دنیا کا سب سے معتبر باکسنگ ڈیٹا بیس ہے، اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ بیلٹ بمشکل دو بار، 2017 اور 2018 میں سامنے آیا تھا۔ او پی بی ایف کی درجہ بندی کے مطابق وزیر اپنے وزن کے زمرے میں صرف چوتھے نمبر پر تھے اور کسی طرح بھی ٹائٹل کے اہل نہیں تھے۔

ان کے مخالفین کی حقیقت بھی یہی ظاہر کرتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر جریدہ باکسر ہیں جنہیں باکس ریک پر آدھے ستارے سے لے کر دو ستارے تک کی ریٹنگ ملی ہوئی ہے۔ ان کی ’’ٹائٹل فائٹس‘‘ ایسے حریفوں کے خلاف ترتیب دی گئیں جو عملی طور پر کوئی خطرہ نہیں رکھتے تھے۔

اس کے مقابلے میں محمد وسیم جیسے اصل پروفیشنل چیمپئن دیکھیں جنہوں نے دولتِ مشترکہ، ایشیائی اور ورلڈ کامبیٹ گیمز جیتنے کے بعد پروفیشنل کیریئر میں قدم رکھا۔

اسی طرح پاکستان باکسنگ کے ٹاپ لیجنڈ حسین شاہ نے بھی اولمپک برونز جیتنے کے بعد پروفیشنل باکسنگ کی اور آٹھ لگاتار فائیٹس جیتیں لیکن سر میں خطرناک چوٹ لگنے سے اپنا کیرئیر جاتی نہ رکھ سکے۔

پاکستان باکسنگ فیڈریشن کے مطابق عثمان وزیر نے صرف ایک قومی ایونٹ 2015 میں کھیلا تھا جہاں وہ سندھ کے باکسر بالاچ سے ہار گئے۔ انہوں نے نہ کبھی نیشنل چیمپئن شپ جیتی، نہ پاکستان کی نمائندگی کی اور نہ ہی اس نظام سے گزرے جو اصل باکسرز کو تراشتا ہے۔

یہ سوال خودبخود پیدا ہوتا ہے کہ جس کھلاڑی کا کوئی قومی ریکارڈ نہیں، کوئی ایمیچور سند نہیں اور کسی عالمی ادارے سے تسلیم شدہ نہیں، وہ پاکستان کا ’’فخرِ باکسنگ‘‘ کیسے بن گیا؟

حقیقت یہ ہے کہ حکومت، محکمے اور میڈیا کا ایک حصہ جعلی چیمپئنز کو تو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جبکہ اصل ٹیلنٹ کو نظر انداز کرتا ہے۔

عثمان وزیر کو 2022 میں حکومت پاکستان نے لاکھوں روپے دیے جبکہ لگے بلتستان میں بھی نوازشات کی بارش کی گئ، 2024 میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا اور 2025 میں سندھ کے وزیر اعلیٰ نے بھی انہیں اعزاز بخشا۔ اس دوران پاکستان کے حقیقی باکسرز فنڈز سے محروم، نظرانداز اور پردۂ گمنامی میں دبے رہے۔

یہاں میں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ پاکستان کے عظیم باکسر حسین شاہ کے نام سے منصوب اسلام آباد میں موجود اکلوتا باکسنگ حال بھی برطانوی نژاد عامر خان کے نام کر دیا گیا جو ذمہ داروں کی نااہلی اور کم عقلی کی دیدہ زیب مثال ہے ۔ اسی عامر خان نے ابتدائی طور پر عثمان وزیر کو پرموٹ کیا۔

حسین شاہ نے ایک کال پر بات کرتے ھوۓ کہا کہ میں ایک ان پڑھ جاہل گنوار اگر باکسنگ کی رینکنگ کو ویب سائٹ پر دیکھ کر بتا سکتا ھوں کہ یہ جعلی مقابلے ھیں اور عثمان کا نام کہیں 100 میں بھی نہیں تو بڑے بڑے کمروں میں بیٹھے یہ دانا فلاسفر کیوں نہیں جان سکتے۔ انہوں نے مزید کہا یہ سب ملی بھگت سے چل رہا ھے۔ ایمچور والے پروفیشنل میں گھسے ھوۓ ھیں جبکہ یہ دونوں مختلف باکسنگ ھے۔

اکرم خان سیکرٹری پاکستان باکسنگ فیڈریشن حقیقی گروپ نے کہا پہلے تو جس فیڈریشن نے اعتراض کیا اس سے پوچھا جائے کہ وہ کس کھاتے میں پرو گرین باکسنگ فیڈریشن کو الحاق کر سکتے ھیں جبکہ وہ دعویٰ ایمچور باکسنگ کا کرتے ھیں۔

جبکہ انہوں نے ایسے حالات میں عثمان وزیر جیسے باکسرز کو اس نظام کی کمزوری اور حکومتی سطح پر باکسنگ جیسے کھیل سے کا پرواہی قرار دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کھلاڑیوں کو مواقع شفافیت سے نہیں ملیں گے تو وہ ایسے آسان راستے تلاش کریں گے۔ انہوں نے کہا چلیں یہ جن کو دو نمبر کہتے ھیں یہ پاکستان کا جھنڈا تو لہراتے ھیں ان گھس بیٹھیوں اور ان کے ھیندلرز سے پوچھیں کہ وہ کس شفافیت سے فیڈریشن میں آۓ ھیں؟

بین الاقوامی سطح پر ماہرین جیسے برطانوی کوچ ڈینی وان اور عالمی درجہ بندی رکھنے والے محمد وسیم نے ان ٹائٹلز کو کھلے عام جعلی قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ تھائی لینڈ اور دبئی جیسے مقامات پر منتظمین پیسے کے عوض آسان مقابلے کروا دیتے ہیں۔ ایسے جیت عالمی باکسنگ برادری میں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ اصل چیمپئن خون، پسینے اور قربانی کے بعد بنتے ہیں، جبکہ مصنوعی چیمپئن پیسے دے کر شارٹ کٹ اپناتے ہیں، نظام کو دھوکہ دیتے ہیں، اسپانسرز کو گمراہ کرتے ہیں اور کھیل کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

یہ مسئلہ صرف عثمان وزیر تک محدود نہیں۔ یہ پاکستان کے کھیلوں کے مجموعی زوال کی علامت ہے: انفراسٹرکچر کی کمی، احتساب کا فقدان، فیڈریشنز میں اقرباپروری، اور اس بات پر کوئی کنٹرول نہیں کہ ملک کی نمائندگی کون کرے گا۔

اسی لیے ہم نہ صرف جعلی مرد چیمپئنز تو دیکھتے آۓ ہیں بلکہ علیہ سومرو جیسی مثالیں بھی سامنے آتی ہیں جو تھائی لینڈ سے یہ دعویٰ لے کر واپس آئیں کہ وہ پہلی پاکستانی خاتون ہیں جس نے انٹرنیشنل باکسنگ ٹائٹل جیتا، جبکہ حقیقی ایتھلیٹس جیسے ایشیائی کانسی کے تمغہ جیتنے والا ذوہیب رشید اس نظام سے تنگ آ کر مجبوری میں بیرون ملک لاپتہ ہو جاتے ہیں۔

اگر پاکستان میں باکسنگ کو بچانا ہے تو یہ افراد یا مفاد پرست فیڈریشنز پر انحصار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان نام نہاد پروموشنز پر۔ حل صرف اس میں ہے کہ اصل شائقین اور ماہرین کو، چاہے وہ باکسنگ، ایم ایم اے، ریسلنگ، کراٹے یا تائیکوانڈو سے تعلق رکھتے ہوں، ایک آزاد پروفیشنل کونسل کے تحت متحد کیا جائے۔

یہ کونسل صرف وہی بیلٹس تسلیم کرے جو عالمی باڈیز یعنی ڈبلیو بی سی، ڈبلیو بی اے، آئی بی ایف اور ڈبلیو بی او کی جانب سے منظور شدہ ہوں، پروفیشنل فائٹس کے لیے بین الاقوامی اصول وضوابط کو لاگو کرے،

ایمیچور چیمپئنز کو پروفیشنل سطح تک آنے کا راستہ دے، عوام اور اسپانسرز کو جعلی ٹائٹلز کے بارے میں آگاہ کرے اور حکومت کو ایوارڈز اور فنڈنگ کے شفاف معیار کا پابند کرے۔

صرف اسی اتحاد اور اجتماعی کوشش سے ہم باکسنگ کی ساکھ کو بچا سکتے ہیں اور نئی نسل کو شارٹ کٹس اور جعلی کامیابیوں سے بچا سکتے ہیں۔

تحریر: کھیل دوست، شاہد الحق ;  اسپورٹس فلاحی کارکن | سابق نیشنل باسکٹ بال پلیئر | فٹنس کوچ (قومی ٹیموں کے لیے) | سی ای او و ہوسٹ، اسپورفٹ یوٹیوب چینل | ڈویلپمنٹ ڈائریکٹر، پاکستان پاور لفٹنگ فیڈریشن

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!