مضامینہاکی

روم کی فتح – پاکستان ہاکی کی وہ جنگ جو کھیل کے میدان میں جیتی گئی

تحریر: کھیل دوست، شاھدالحق

روم کی فتح – پاکستان ہاکی کی وہ جنگ جو کھیل کے میدان میں جیتی گئی

تحریر: کھیل دوست، شاھدالحق

پاکستان کی تاریخ میں ستمبر ایک ایسا مہینہ ہے جس میں کئی اہم دن آتے ہیں۔ 6، 7 اور 8 ستمبر 1965 کی جنگ کو ہم ہر سال یادگار دن کے طور پر مناتے ہیں۔ اس جنگ میں دونوں جانب سے ہزاروں جانیں قربان ہوئیں، ہزاروں زخمی ہوئے، اور عوام کئی دن خوف اور بے یقینی میں مبتلا رہی۔ اس جنگ کو دونوں ملک اپنی جیت قرار دیتے ہیں، مگر اس کے اثرات آج تک نفرتوں اور فاصلے کی صورت میں باقی ہیں۔

لیکن اس کے برعکس 9 ستمبر 1960 کو روم اولمپکس کے میدان میں پاکستان نے بھارت کو شکست دے کر ایک ایسی "جنگ” جیتی جس میں نہ کوئی گولی چلی، نہ کوئی جان گئی، نہ کوئی زخمی ہوا۔ یہ جیت امن، محبت اور کھیل کی طاقت سے حاصل کی گئی تھی۔ پاکستان نے بھارت کے چھ دہائیوں پر محیط ناقابل شکست ریکارڈ کو توڑا اور پہلی بار اولمپک گولڈ میڈل جیت کر دنیا کو دکھا دیا کہ کھیل کے میدان میں بھی قومیں اپنا وقار قائم کر سکتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ھوتا جنگ تین اہم دنوں کے ساتھ 9 ستمبر بھی قومی ورثہ اور یادگار دن بنا دیا جاتا اور اسے نصاب میں شامل کر لیا جاتا۔

روم اولمپکس 1960 – فیصلہ کن لمحہ

بھارت 1928 سے 1956 تک مسلسل چھ اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت چکا تھا گو کے اس وقت پاکستان وجود میں نہیں آیا تھا اور 1948 سے پہلے یہ جیت بھی مشترکہ جیت ہی تصور کی جاتی تھی۔ دنیا اسے ہاکی کی واحد طاقت سمجھتی تھی۔ لیکن روم کے فائنل میں پاکستان کے کھلاڑیوں نے اپنے جذبے، حکمت عملی اور غیر معمولی کارکردگی سے سب کچھ بدل دیا۔

فیصلہ کن لمحہ اس وقت آیا جب نصیر بندہ نے وہ تاریخی گول اسکور کیا جس نے بھارت کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ یہ واحد گول پاکستان کے لیے سونے کی چابی ثابت ہوا۔

عبد الحمید حمیدی – قیادت اور گولز کے ہیرو

ٹورنامنٹ میں پاکستان کے کپتان عبد الحمید حمیدی نے سب سے زیادہ گول اسکور کیے اور شاندار قیادت کے جوہر دکھائے۔ ان کی کارکردگی اور ٹیم کی رہنمائی نے پاکستان کو اولمپک چیمپیئن بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔

1960 کی سنہری ٹیم – پاکستان کے عظیم ہیروز

یہ وہ مردِ مجاہد تھے جنہوں نے روم میں تاریخ رقم کی:

عبد الحمید حمیدی (کپتان، فارورڈ رائٹ اِن)

منظور حسین عاطف (ڈیفینڈر لیفٹ فل بیک)

نور عالم (فارورڈ رائٹ آؤٹ)

انور احمد خان (ڈیفینڈر سنٹر ہاف، نائب کپتان)

عبد الرشید (گول کیپر)

بشیر احمد (ڈیفینڈر رائٹ فل بیک)

چوہدری غلام رسول (مڈفیلڈر رائٹ ہاف)

متی اللہ (فارورڈ لیفٹ آؤٹ)

نصیر بُندہ (فارورڈ لیفٹ اِن – فائنل کے ہیرو)

حبیب علی کِڈی (مڈفیلڈر لیفٹ ہاف)

عبد الوحید خان (فارورڈ سنٹر)

ریزرو کھلاڑی

اے۔ آر۔ گارڈنر

خواجہ زکا الدین

منیر ڈار

خورشید اسلم

ظفر حیات

ظفر علی ظفری

مشتاق احمد (فارورڈ ریزرو)

عہدیداران

مینیجر: علی اقتدار شاہ دارا

کوچ: نیاز خان

جنگ اور کھیل کا فرق – دنیا امن چاہتی ھے

6 ستمبر کی جنگ نے ہمیں قربانیاں اور زخم دیے، جبکہ 9 ستمبر کی فتح نے ہمیں عزت، وقار اور دنیا میں ایک نئی پہچان دی۔ یہی کھیلوں کی اصل طاقت ہے کہ وہ نفرت کے بجائے محبت، دشمنی کے بجائے امن اور خونریزی کے بجائے خوشی بانٹتے ہیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ ہم کھیل کی فتوحات کو بھی قومی دنوں کی طرح منائیں تاکہ نئی نسل کو یہ سبق دیا جا سکے کہ اصل جیت وہ ہے جو انسانیت کو ساتھ لے کر چلی جائے۔

حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت

ضروری ہے کہ حکومت کھیلوں میں حاصل ہونے والی ان تاریخی فتوحات کو قومی دنوں کی طرح یادگار بنائے۔ اس کے لیے:

سکولوں اور کالجوں میں سیمینار اور تقریبات ہوں۔

کھیلوں کے ہیروز کو خراجِ تحسین پیش کیا جائے۔

نوجوانوں میں کھیلوں کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے قومی سطح پر پروگرام ترتیب دیے جائیں۔

اس طرح نہ صرف ہماری تاریخ زندہ ہوگی بلکہ کھیلوں کے ذریعے امن، بھائی چارہ اور قومی اتحاد کو بھی فروغ ملے گا۔

میجر محمد آمین ناصر اور پروفیسر راؤ جاوید اقبال – روشنی کی کرن

جب دونوں بانیوں کی بار بار کی اپیلوں نے حکومت کی توجہ حاصل نہ کی تو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ہاکی کے کوفاؤنڈرز میجر محمد امین ناصر اور پروفیسر راؤ جاوید اقبال نے ہاتھ ملا کر اس مشن کا آغاز کیا اور پروفیسر راؤ کے تخلیق کردہ خیال "9 ستمبر: نیشنل ڈے آف ہاکی” کو عملی جامہ پہنایا۔ کئی سالوں سے وہ 9 ستمبر کو پاکستان کے شہروں، قصبوں اور دیہات میں ہاکی کے ایونٹس منعقد کرتے آ رہے ہیں تاکہ اس دن کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ ان کی یہ لگن نئی نسل کو اس شاندار فتح سے جوڑنے اور ہاکی کے جذبے کو دوبارہ زندہ کرنے کا ایک سنگِ میل ہے۔

نتیجہ – کھیلوں کی طاقت کو پہچانیں

پاکستان نے ہاکی میں تین اولمپکس، چار ورلڈ کپ، آٹھ ایشین گیمز، تین ایشیا کپ اور تین چیمپیئنز ٹرافی جیت کر دنیا کو اپنی برتری منوائی۔ یہ تاریخ صرف ریکارڈ بک میں محفوظ رکھنے کے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو ترغیب دینے کے لیے ہے۔

یہی وہ وقت ھے جب ھم کھیلوں کی اہمیت کو سمجھیں اور ہم کھیلوں کو جنگ کے بجائے امن کا ذریعہ بنائیں اور اپنی فتوحات کو قومی ورثے کا حصہ بنائیں۔

تحریر: کھیل دوست، شاہد الحق  (اسپورٹس فیلنتھراپسٹ، سابق نیشنل باسکٹ بال پلیئر، فٹنس کوچ، اسپورٹس صحافی، رائٹر اور وی لاگر)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!