پاکستان کے جارح مزاج بیٹر عمر اکمل نے ٹیم میں واپسی کی امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں پتا میرے لیے قومی ٹیم کے دروازے کیوں بند ہیں۔نجی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر اکمل کا کہنا تھا کہ آغاز سے ہی ٹیم کی ضرورت کے مطابق کھیلنے کی کوشش کی، ٹیم میں واپسی کیلئے پر امید ہو ں، اگر اللہ نے چاہا اور مداحوں سمیت سابق کھلاڑیوں کی سپورٹ ملی تو ضرور واپسی ہوگی۔مڈل آرڈر کے حوالے سے پاکستان ٹیم میں اپنے کیرئیر پر اور حالیہ ٹیم کے مڈل آرڈرز کو درپیش مسائل پر کیے گئے سوال سے متعلق عمر اکمل کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں پتا میرے لیے ٹیم کے دروازے کیوں بند ہیں، مجھے نہیں لگتا کسی نے بند کیے لیکن جب بھی موقع ملا جہاں سے چھوڑا تھا وہیں سے شروع کروں گا۔عمر اکمل کا کہنا ہے کہ فٹنس کا مسئلہ نہیں ہے، وکٹ کیپنگ بھی کر رہا ہوں تاہم اگر کسی کو فٹنس کا مسئلہ نظر آرہا ہے تو مجھے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ٹرینرز کیساتھ کام کرنے کا موقع دیا جائے
اگر اکیڈمی میں نہیں بھی بلانا تو ٹرینر مجھے اپنا پلان دے دیں، میں اپنا پرسنل ٹرینر بھی ہائر کرلوں گا۔دوسری جانب وکٹ کیپر کامران اکمل کا نجی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں کہنا تھا کہ نظر آرہا ہے کہ پسند ناپسند کے معیار پر ٹیم بن رہی ہے، ہم نے جتنی کرکٹ کھیلنی تھی کھیل لی لیکن یہ پاکستان کرکٹ کیلئے اچھی چیز نہیں ہے، ہم آہنگی بالکل بھی نہیں ہے سب اپنی انا میں گھوم رہے ہیں اور یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ساری زندگی سیٹ پر رہنا ہے، ایسے کرکٹ اوپر نہیں جا سکتی۔
کامران اکمل کا کہنا تھا ہمارے دور میں چیف سلیکٹر اور ٹیم کے کرتا دھرتا اچھی ٹیم بناتے تھے لیکن اب سب کے سامنے ہے اس کے لیے آپ صرف کپتان کو نہیں کہہ سکتے، کپتان کر رہا ہے اس میں اور لوگ بھی شامل ہیں، ہائی پرفارمنس کیمپ میں چیمپئن کوچ کو ہٹا کر اپنی مرضی کے کوچز لگائے جاتے ہیں اور کھلاڑیوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کوچز کا احتساب نہیں کیا جاتا، رمیز راجا نے 60 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں، ان کو کھلاڑیوں کی اہمیت معلوم ہونی چاہیے، ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی آپ پسندیدہ کھلاڑیوں کو کھلا رہے ہیں تو اس کا نقصان ہے، اس کی مثال نیشنل ٹی ٹوئنٹی میں دیکھ لیں، مجھے کیوں نہیں کھلایا جا رہا، یہ سوال مینجمنٹ سے کرنا چاہیے، مجھے نہیں کھلانا تھا تو بات کرتے ہمارے ملک میں عمر کو لے کر مسئلہ ہے جبکہ دیگر ملکوں میں ایسا نہیں ہے۔