پینتیسویں نیشنل گیمز ۔ پاکستان آرمی نے مسلسل پچیسویں مرتبہ ٹائٹل جیت لیا
رپورٹ ; عمران یوسف زئی

پینتیسویں نیشنل گیمز ۔ پاکستان آرمی نے مسلسل پچیسویں مرتبہ ٹائٹل جیت لیا
رپورٹ ; عمران یوسف زئی
پاکستان میں کھیلوں کا سب سے بڑا میلہ یعنی نیشنل گیمز اپنے اختتام کو پہنچا، کراچی میں ہونے والی 35 ویں نیشنل گیمز میں پاکستان آرمی نے مسلسل 25 ویں مرتبہ ٹائٹل جیت کر نئی تاریخ رقم کر دی ہے،
آج کی تحریر میں جائزہ لیں گے کہ کس ڈیپارٹمنٹ اور صوبے کی کیا پوزیشن رہی۔ پاکستان آرمی 1968 سے ناقابل شکست اور مسلسل اس میگا ایونٹ کی فاتح چلی آرہی ہے اور اس بار بھی اسے شکست دینے کا خواب کوئی ٹیم پورا نہیں کر سکی۔
32 مختلف کھیلوں کے مقابلوں میں 9 ہزار سے زائد کھلاڑیوں نے حصہ لیا اور مجموعی طور پر 1294 میڈلز میں سے 353 تمغے جیت کر پاکستان آرمی نے مسلسل پچیسویں مرتبہ قائد اعظم ٹرافی اپنے نام کی۔
پاکستان آرمی سمیت سات ٹیمیں اپنی سابقہ پوزیشنز برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں، تین ٹیموں نے درجہ بندی میں ترقی کی جبکہ چار ٹیموں کی پوزیشن تنزلی کا شکار ہوئی۔
آرمی سمیت واپڈا اور نیوی اپنی سابقہ درجہ بندی یعنی پہلی ، دوسری اور تیسری پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں، ہائیر ایجوکیشن کمیشن، سندھ، گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر بھی اپنی سابقہ پوزیشن پر موجود رہیں،
پنجاب نے سب سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار درجہ ترقی کی، بلوچستان اور اسلام آباد کی ٹیمیں بھی ایک ایک درجہِ اوپر جانے میں کامیاب رہیں جبکہ پچھلی نیشنل گیمز کے مقابلے میں اس مرتبہ بیس میڈلز زیادہ جیتنے کے باوجود خیبر پختونخوا کی ٹیم ایک درجہِ تنزلی کا شکار ہوئی،
خیبر پختونخوا نے کوئٹہ میں ہونے والی 34 ویں نیشنل گیمز میں صوبوں میں دوسری اور مجموعی پر ساتویں پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ اس مرتبہ خیبر پختونخوا کی پوزیشن مجموعی طور پر آٹھویں اور صوبوں میں تیسری رہی ہے۔
پی اے ایف کی ٹیم تین درجہ تنزلی کا شکار ہوئی، پچھلی نیشنل گیمز میں پی اے ایف نے چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ اس بار ان کی پوزیشن ساتویں رہی۔ پاکستان ریلویز اور پاکستان پولیس بھی حالیہ نیشنل گیمز میں ایک ایک درجہ نیچے رہیں۔
شروع کرتے ہیں نیشنل گیمز کی فاتح ٹیم پاکستان آرمی سے جس کے کھلاڑیوں نے اس بار سونے کے تمغوں کی ڈبل سنچری اور مجموعی طور پر میڈلز کی ٹرپل سنچری مکمل کی۔
آرمی کے کھلاڑیوں نے 200 سونے کے تمغے جیتے، 97 چاندی اور 56 کانسی کے تمغے بھی آرمی کے کھلاڑی اپنے گلے میں ڈالنے میں کامیاب رہے۔ پاکستان آرمی کی ٹیم 1968 کے بعد سے اب تک مسلسل 25 مرتبہ نیشنل گیمز میں ناقابل شکست رہی ہے اور یہ بھی بلاشبہ ان گیمز کا ایک ناقابل تسخیر ریکارڈ ہے۔
پاکستان واپڈا پچھلی گیمز کی طرح اس بار بھی دوسرے نمبر پر رہی، واپڈا کے کھلاڑیوں نے 85 سونے کے، 73 چاندی کے اور 74 کانسی کے تمغے جیتے ان کے مجموعی میڈلز کی تعداد 232 رہی۔
پاکستان نیوی بھی اپنی سابقہ یعنی تیسری پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب رہی، نیوی کے کھلاڑیوں نے مجموعی طور پر 110 میڈلز جیتے جس میں 36 سونے، 39 چاندی اور 35 کانسی کے تمغے شامل تھے۔
پنجاب نے اس بار شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہائی جمپ لگا کر چوتھی پوزیشن پر قبضہ جمایا حالانکہ پنجاب نے پچھلی نیشنل گیمز میں صوبوں میں تیسری اور مجموعی طور پر آٹھویں پوزیشن حاصل کی تھی۔
اس بار پنجاب کے کھلاڑیوں نے 126 میڈلز جمع کئے جس میں 16 سونے کے، 38 چاندی اور 72 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ پانچویں نمبر پر ہائیر ایجوکیشن کا دستہ رہا جس نے مجموعی طور پر 118 میڈلز اٹھائے اس میں 14 سونے کے، 39 چاندی اور 65 کانسی کے تمغے شامل تھے۔
میزبان سندھ کا دستہ چھٹے نمبر پر رہا اس کے کھلاڑیوں نے ٹوٹل 96 میڈلز جیتے جس میں 11 سونے کے، 26 چاندی اور 59 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ ساتویں نمبر پر پاکستان ایئر فورس کے کھلاڑیوں نے 10 سونے کے، 16 چاندی اور 27 کانسی کے ساتھ ٹوٹل 53 میڈلز سمیٹے۔
خیبر پختونخوا کی ٹیم نے گزشتہ نیشنل گیمز میں 49 میڈلز جیتے تھے اس کے باوجود اس کی پوزیشن مجموعی طور پر ساتویں اور صوبوں میں دوسری تھی، اس بار خیبر پختونخوا کے کھلاڑیوں نے 69 میڈلز اپنے نام کئے لیکن پھر بھی مجموعی طور پر آٹھویں اور صوبوں میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔
خیبر پختونخوا کے کھلاڑی 5 سونے کے، 18 چاندی اور 46 کانسی کے تمغے جیتنے میں کامیاب رہے۔ نویں نمبر موجود بلوچستان نے ایک درجہ ترقی کرتے ہوئے اس بار 4 سونے کے، 14 چاندی اور 30 کانسی کے تمغوں کے ساتھ ٹوٹل 48 میڈلز اپنے نام کئے،
اسی طرح پاکستان ریلویز ایک درجہ تنزلی کا شکار ہو کر پوائنٹس ٹیبل پر 10 واں سپاٹ حاصل کر سکی، پاکستان ریلویز کے ٹوٹل 29 میڈلز میں 3 سونے کے، 4 چاندی اور 22 کانسی کے تمغے شامل تھے۔
گیارہویں نمبر پر اسلام آباد کا دستہ رہا جس کے کھلاڑیوں نے 2 سونے کے، 5 چاندی اور 11 کانسی کے تمغے سمیٹے۔ پاکستان پولیس نے مجموعی طور پر 28 میڈلز جیتے جس میں 1 سونے کا، 2 چاندی اور 25 کانسی کے تمغے شامل تھے۔
پاکستان پولیس کا دستہ بھی پچھلی گیمز میں گیارہویں جبکہ اس بار بارہویں پوزیشن حاصل کر سکا۔ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر بالترتیب تیرہویں اور چودہویں نمبر پر رہے دونوں کے کھلاڑی سونے اور چاندی کا تمغہ جیتنے میں ناکام رہے جبکہ دونوں ہی کے کھلاڑیوں نے 7٫7 کانسی کے تمغے جیتے۔
خیبر پختونخوا کے دستے کی بات کی جائے تو گزشتہ نیشنل گیمز کے مقابلے میں اس سال ہونے والی نیشنل گیمز میں کئی کھیلوں میں میڈلز نہ آ سکے، کوئٹہ میں ہونے والی 34 ویں نیشنل گیمز سے چند ماہ پہلے قیوم سپورٹس کمپلیکس کے ٹارٹن ٹریک کو اکھاڑنے کا نقصان پچھلی گیمز میں تو ہوا ہی تھا
رواں سال کراچی میں ہونے والی 35 ویں نیشنل گیمز میں بھی اس کے اثرات دکھائی دیئے اور تاحال یہ ٹریک مکمل نہ ہونے کی باعث اس بار بھی ایتھلیٹکس میں صوبے کو صرف ایک کانسی کا تمغہ مل سکا۔
گزشتہ سال ریسلنگ اور تیراندازی میں بھی صوبے کو ایک ایک کانسی کا تمغہ ملا تھا لیکن اس بار یہ ایسوسی ایشنز بھی خالی ہاتھ واپس آئیں۔ خیبر پختونخوا کے کھلاڑیوں کو پچھلی نیشنل گیمز کی طرح اس نیشنل گیمز میں بھی سب سے زیادہ میڈلز مارشل آرٹس میں ملے،
34 ویں نیشنل گیمز میں صوبے کے 49 میڈلز میں سے 27 میڈلز تائیکوانڈو، جوڈو، ووشو اور کراٹے میں آئے تھے اس مرتبہ بھی سب سے زیادہ یعنی 32 میڈلز مارشل آرٹس کے کھلاڑی ہی جیتنے میں کامیاب رہے ہیں اس میں 2 سونے کے، 8 چاندی اور 22 کانسی کے تمغے شامل ہیں۔
ان میں بھی اگر نظر ڈالی جائے تو تائیکوانڈو میں 14، جوڈو میں 8، کراٹے میں 6 اور ووشو میں 4 میڈلز صوبے کو ملے ہیں۔ گویا خیبر پختونخوا کو ملنے والے مجموعی میڈلز کا 45.37 فیصد حصہ مارشل آرٹس کے کھلاڑیوں کے مرہون منت رہا۔
سیلنگ کے کھلاڑی 9 تمغے جیتنے میں کامیاب رہے جس میں پہلی مرتبہ خیبر پختونخوا کی خاتون کھلاڑی عمیمہ عمران نے ویمن کیٹگری میں صوبے کے لئے سونے کا تمغہ جیتا۔
فینسنگ، ٹینس اور باڈی بلڈنگ میں 4٫4، ٹیبل ٹینس اور سکواش میں 3،3، گالف اور بیڈمنٹن میں 2٫2 جبکہ ایتھلیٹکس، اور ویٹ لفٹنگ میں ایک ایک میڈل صوبے کو مل سکا۔
ڈائریکٹوریٹ آف سپورٹس خیبر پختونخوا کی جانب سے نیشنل گیمز کے کامیاب کھلاڑیوں کے لئے نقد انعامات کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے اور سونے کا تمغہ جیتنے والے ہر کھلاڑی کو تین لاکھ، چاندی کا تمغہ جیتنے والوں کو 2 لاکھ جبکہ کانسی کا تمغہ جیتنے والوں کو ایک ایک لاکھ روپے کا انعام دیا جائے گا،
تاہم اس بار ان ایسوسی ایشن سے بھی ضرور سوال کیا جانا چاہیے جن کے کھلاڑی کوئی میڈل نہ جیت سکے، جب تک سزا اور جزا کا عمل ساتھ ساتھ نہیں چلے گا کھیلوں کا سسٹم درست کرنا ممکن نہیں ہوگا۔



