مَیں کوہ پیمائی کے ایک جونیئر طالبعلم کی حیثیت سے گُزشتہ 10 سال سے ہمالین کوہ پیمائی کی مُہمات کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ پہاڑوں کی ساخت، موسمی تغیّرات، کلائمبنگ رُوٹس، چیلنج لیول، کامیاب اور ناکام مُہمات اور کوہ پیمائی کے حادثات کی تفصیلی تحقیق و جائزہ بھی میرے اِس مطالعاتی سفر کا حصّہ رہا ہے۔ اس دوران کئی تحقیقاتی آرٹیکلز کو آسان عام فہم پیرائے اور قومی زبان میں تحریر کرکے پیش کرتا رہا ہوں تاکہ پہاڑوں سے مُحبّت کرنے والے عام پاکستانی تک بہتر معلومات کی رسائی ہو سکے۔ چنانچہ میری محدود لیکن اہم معلومات کی روشنی میں K2 پر پیش آنے والے حالیہ حادثے کے حوالے سے چند گُزارشات پیشِ خدمت ہیں۔۔۔
یاد رہے کہ K2 کے کلائمبنگ رُوٹس میں سے دُنیا بھر کے کوہ پیماؤں کی طرف سے سب سے زیادہ اختیار کیا جانے والا رُوٹ بلاشُبہ Abruzzi Spur یا Abruzzi Ridge ہے۔ لمحہء موجود تک 75 فیصد سے زیادہ مُہمات اسی رُوٹ پر کی گئیں۔ K2 کو موسمِ سرما میں سر کرنے کی حالیہ مُہمات بھی Abruzzi Route پر ہی کی گئی ہیں۔ اس رُوٹ کے علاوہ ایک اور اہم رُوٹ چیزن رُوٹ (Cesan Route) یا Basque Route کہلاتا ہے. یہ دراصل South-SouthEast Spur ہے۔ جو Abruzzi Route کے کیمپ 4 پر موجود شولڈر سیکشن کےآس پاس ڈیتھ زون یعنی 8000 میٹر کی بُلندی پر جا کر اُس سے مل جاتا ہے اور آگے دونوں رُوٹ ایک ہو جاتے ہیں۔ زیرِ نظر تصویر میں لائن E اسی Cesan Route کو ظاہر کرتی ہے جبکہ Abruzzi Route کو لائن F سے مارک کیا گیا ہے۔ چیزن رُوٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ سارا رُوٹ rock n ice کے مِکس علاقے پر مشتمل ہے جو کلائمبنگ کے لحاظ سے انتہائی ٹیکنیکل اور مُشکل ترین چیلنج ہے۔ اسی چیزن رُوٹ کے اُوپر والا rocky portion دراصل ڈیتھ زون میں موجود مشہور bottleneck section کی لیفٹ سائیڈ پر اور Traverse section کے عین نیچے والا حصّہ ہے۔ جس سے متعلق کچھ عرصہ قبل نیپالی شرپاؤں نے اظہار کیا تھا کہ پاکستانی حُکّام سے اجازت لیکر bottleneck section اور over-hanging seracs کو avoid کرنے کی غرض سے bolt اور ladders لگا کر نیا رُوٹ improvise کیا جاسکتا ہے تاکہ K2 کے ڈیتھ زون میں bottleneck اور seracs کے hazards سے بچا جاسکے۔ لیکن اس میں ایک قباحت ہے اور وہ یہ کہ اس طرح کوہ پیماؤں کو تقریباً 8200 میٹر پر rock climbing کرنا پڑے گی جو کہ انتہائی مُشکل ترین کام ہوگا۔ کیونکہ over-hanging seracs سے بچ بھی جائیں تو rockfall کا خطرہ تو پھر بھی موجود رہےگا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ رُوٹ کی یہ improvisation شاید قابلِ عمل نہ ہو۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف کہ علی سدپارہ کی ٹیم کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ہوگا۔ آئیے اسکا جائزہ لیتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ جان لیجیے کہ کوہ پیمائی کی تاریخ میں K2 پر آج تک صرف 400 کے لگ بھگ کوہ پیما ہی چڑھ پائے ہیں جبکہ اس دوران 87 کوہ پیما جان سے گئے۔ ان کُل 87 اموات میں سے 91 فیصد اموات bottleneck section کے آس پاس ڈیتھ زون میں ہوئی ہیں۔ جو کوہ پیما summit push کےلیے کیمپ 4 پر 7800 میٹر کی بُلندی پر پہنچ جاتے ہیں وہ رات کو قریب 11 بجے یا اُس کے بعد چڑھائی کا آغاز کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ڈیتھ زُون میں داخل ہو کر سُورج کی پہلی کرنیں پڑنے سے پہلے پہلے over-hanging seracs اور bottlenceck سیکشن کو کراس کرلیں کیونکہ صُبح صُبح serac پر برف زیادہ compact ہوتی ہے اور ٹُوٹ کر نیچے گِرنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ اگر کوہ پیماؤں کی رفتار کے حوالے سے بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ اس سیکشن سے گُزرتے ہوئے تقریباً 6 گھنٹے لگتے ہیں اور جب تک آپ traverse کراس کر کے K2 کی summit ridge پر نہیں پہنچتے ہر لمحہ over-hanging برف کے عین نیچے ہوتے ہیں یعنی موت کے سائے سائے خوف اور حواس پر قابو پا کر چلنا پڑتا ہے۔ جبکہ کلائمبنگ بھی ٹیکنیکل ہوتی ہے۔ ڈیتھ زون میں اس طرح کا چیلنج دُنیا کی کسی آٹھ ہزاری چوٹی پر نہیں ہے، حتّیٰ کہ killer mountain نانگا پربت پر بھی 7600 میٹر کے بعد کلائمبنگ ٹیکنیکل نہیں رہتی۔ یہی چیز K2 کو وحشی پہاڑ کا درجہ دیتی ہے۔
علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ کے مطابق جب اُسے ڈیتھ زون میں hallucination شروع ہوئی اور آکسیجن ماسک کے ریگولیٹر خراب ہوجانے کے باعث اُس کے والد نے اُسے واپس بھیجا تو اُسوقت دن کے 10 بج چُکے تھے اور علی سدپارہ کی ٹیم 8200 یا 8300 میٹر پر یعنی bottleneck سیکشن کے انتہائی خطرناک حصّے پر موجود تھی۔ 91 میٹر کے bottlenck سیکشن کراس کرنے کے بعد traverse آتا ہے اسی traverse کی ice-wall کے ساتھ چپک کر فکسڈ لائن پر آپ کو چلنا ہوتا ہے۔ اس موقع پر کُل تین خطرات ہوتے ہیں۔ نمبر 1 over-hanging seracs سے برف کا کوئی تودہ ٹُوٹ کر آپ پر گِرے یا فکسڈ لائن کو کاٹ دے۔ نمبر 2 فکسڈ لائن کی کوئی رسّی خُدانخواستہ اچانک ٹُوٹ جائے اور نمبر تین یہ کہ exhaustion یا lack of focus کی وجہ سے آپ کا پاؤں پِھسلے اور آپ فکسڈ لائن کو اپنے وزن کی friction کی وجہ سے اُکھاڑنے کا مُوجب بن جائیں۔ اِن تینوں صُورتوں میں آپ پینڈولم کی طرح لٹک جائیں گے اور چونکہ فکسڈ لائن پر ایک سے زیادہ کوہ پیما ہوتے ہیں اس لیے وزن کی وجہ سے سارے نیچے گِر جائیں گے۔ عین نیچے وہ rocky portion ہے جس کا مَیں نے اُوپر ذکر کیا ہے کہ چیزن رُوٹ کے اُوپر وہ پورشن ہے۔ اسے ٹیکنکل زبان میں اَبیس (Abyss) کہتے ہیں۔ اب یہ اَبیس کیا ہے۔ پہلے اِسے جان لیجیے۔
زمین پر جہاں ہوا موجود ہے لیکن خالی گُھپا یا گہرائی ہے اُسے اَبیس (Abyss) جبکہ زمین سے اُوپر جہاں ہَوا نہیں اُسے سپیس (space) کہا جاتا ہے۔
چنانچہ جب کوئی کوہ پیما abyss میں گِرتا ہے تو وہ چیزن رُوٹ کے اُوپر والے rocky یا mix ice n rock والے پُورشن پر گِرے گا۔ اور بدقسمتی سے جو وہاں گِرے گا وہ slide نہیں بلکہ hit ہوگا۔ چنانچہ اس صُورت میں نہ تو self arrest کی تکنیک کام آئے گی اور نہ ہی سنبھلنے کا موقع مِلے گا بلکہ عین ممکن ہے ہڈیاں ٹُوٹنے سے یا ہیڈ انجری سے فوری موت واقع ہو جائے۔ اور اگر خُوش قسمتی سے آپ rocks پر گِرنے کے باوجود زندہ بچ بھی گئے تو شدید زخمی ضرور ہونگے۔ اور exposure میں ہونگے۔ اس حصّے میں bivouac بھی نہیں ہوسکتی کیونکہ برف موجود نہیں۔ لہٰذا بہت دردناک موت جھیلنا پڑے گی۔ اس لیے بہت سے یورپیئن کلائمبرز ایسی دردناک موت سے بچنے کےلیے اپنے ساتھ euthanize کرنے والے انجکشن رکھتے ہیں تاکہ درد ناک موت سے بچیں اور غنودگی کی حالت میں چلے جائیں تاکہ آسان موت مل سکے۔
اس سال 16 جنوری کو نیپالی شرپا خُوش قسمت ترین تھے کہ ایک تو اُنہیں bottleneck اور traverse پر powder snow ملی جس سے اُنکے پاؤں کی grip مضبوط رہی ہوگی اور وہ آرام سے فکسڈ لائن پر بغیر پِھسلے چڑھ گئے اور کے۔ٹو سر ہوگیا۔ لیکن شاید قُدرت کو منظور نہیں تھا اس لیے سدپارہ کی ٹیم یقیناً فکسڈ لائن سے اُوپر بیان کی گئی تین possibilities میں سے کسی ایک کا شکار ہو کر نیچے rocky portion پر گِری ہے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو پھر heli search بےکار جائے گی۔ جبکہ گراؤنڈ ریسکیو ٹیم کےلیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ایک تو وہ پُوری طرح acclimatise نہیں ہیں اور دُوسرا اگر وہ ڈیتھ زون میں پہنچ بھی گئے تو جب تک bottleneck اور traverse کراس کرکے summit ridge پر چڑھیں گے تو ہی اُنہیں اُوپر سے لاپتہ کلائمبرز زندہ یا مُردہ نظر آئیں گے۔ موجودہ صُورتحال میں تین دن کی مسلسل heli search ناکام ہونے سے یہی مُراد ہے کہ لاپتہ کلائمبرز 8000 میٹر سے نیچے چیزن رُوٹ والے icefield میں نہیں گِرے ورنہ نظر آجاتے۔ اور اگر وہ rocky portion پر ہیں تو پھر وہاں تک تو ہیلی کاپٹرز کی پرواز کی صلاحیت ہی نہیں۔ اگر اللہ کی طرف سے کوئی مُعجزہ ہو جائے تو صد شُکر ہوگا اور قوم کی دُعائیں مُستجاب ہو جائیں گی وگرنہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک دو دن کے بعد جب خُدانخواستہ مزید تلاش ترک کردی گئی اور تینوں لاپتہ کوہ پیماؤں کو missing اور persumed to be dead ڈیکلیئر کردیا گیا تو پھر اس سال گرمیوں میں K2 مُہم پر جو کوہ پیما آئے اور وہ ڈیتھ زون میں پہنچ پائے تو ہی شاید ممکن ہوگا کہ کوئی لاپتہ کلائمبرز کی ڈیڈ باڈیز spot کر سکے گا۔ بصورتِ دیگر ان تینوں بہادر کوہ پیماؤں کی یادیں تاریخ کا حصّہ ہیں۔
(پسِ تحریر: میری اس تحریر کا مقصد کسی کی دل آزاری ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ خالصتاً نیک نیتی کے ساتھ کوہ پیمائی کی اصل رُوح سے رُوشناس کروانے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے)