دیگر سپورٹس

عالمی کھیل کی عدالت میں پاکستان کٹہرے میں؟ ڈوپنگ بے ضابطگی | نااہلی یا سازش؟

تحریر: کھیل دوست۔ شاہد الحق

عالمی کھیل کی عدالت میں پاکستان کٹہرے میں؟ ڈوپنگ بے ضابطگی | نااہلی یا سازش؟

تحریر: کھیل دوست۔ شاہد الحق

پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن اور پاکستان اسپورٹس بورڈ (PSB) نے ایک ایسا حیران کن اور خطرناک قدم اٹھایا ہے جو ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی (WADA) کے عالمی ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

ڈوپنگ ٹیسٹ کے لیے نامزد گیارہ اتھلیٹس کی فہرست کو سوشل میڈیا پر شائع کیا گیا — جو کہ نہ صرف ان کی ذاتی رازداری کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ واڈا کے "فئیر پلے” (Fair Play) کے بنیادی اصولوں پر براہ راست حملہ ہے۔

یہ فہرست نہ صرف سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی بلکہ وقار احمد، جو PSB کے اسٹنٹ ڈائریکٹر اور ناڈو پاکستان کے لائژن افسر بھی ہیں، کے دستخط کے ساتھ سرکاری طور پر بھی جاری کی گئی۔

پاکستان اینٹی ڈوپنگ بورڈ میں بدانتظامی اور بدنظمی ;

پاکستان کی اینٹی ڈوپنگ تنظیم (ADOP) اس وقت شدید بحران اور بے ضابطگیوں کا شکار ہے۔ فی الحال ادارے میں کچھ سرکاری افراد کام کر رہے ہیں: ایک "قائم مقام چیئرمین” جو کہ سرکاری ملازم ہیں،

اور ان کے ماتحت وقار احمد۔ دونوں افراد پر الزام ہے کہ وہ اینٹی ڈوپنگ سے متعلق بنیادی معلومات سے بھی نابلد ہیں اور نہ کسی طرح ڈوپنگ کا تجربہ رکھتے ھیں۔

یہ محض انتظامی کوتاہی نہیں بلکہ وہ خطرناک اقدام ہے جو مستقبل میں پاکستان کے کھیلوں کے وقار کو عالمی سطح پر شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ واڈا کے ضوابط ایسے معاملات میں رازداری، خودمختاری،

اور حکومتی مداخلت سے پاک طریقہ کار کو لازمی قرار دیتے ہیں — لیکن موجودہ سیٹ اپ میں ان تمام اصولوں کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

واڈا کی خودمختاری کی خلاف ورزی ;

واڈا کوڈ آرٹیکل 20.5.1 واضح طور پر کہتا ہے کہ کوئی بھی نیشنل اینٹی ڈوپنگ آرگنائزیشن (NADO) آزاد اور خودمختار ہونی چاہیے، جس پر حکومتی، اولمپک ایسوسی ایشن یا کسی فیڈریشن کی مداخلت نہ ہو۔ لیکن اس کے برعکس، پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل نے مبینہ طور پر اپنے اثرورسوخ سے ناڈو پاکستان کا قائم مقام چیئرمین مقرر کروا لیا اور اپنے قریبی ساتھی وقار احمد کو لائژن افسر بنا دیا۔

یہ تقرری نہ صرف غیر شفاف تھی بلکہ واڈا کے قوانین کی واضح خلاف ورزی بھی تھی۔ ناڈو کی حالیہ ریسٹرکچرنگ بغیر کسی بین الاقوامی منظوری کے کی گئی، جس کی وجہ سے بین الاقوامی کھیلوں کی عدالت (Court of Arbitration for Sport) میں زیرِ سماعت مقدمات پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ اگر واڈا نے مداخلت کی تو پاکستان کو عالمی مقابلوں میں سفید جھنڈے کے نیچے شرکت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

نا اہل افراد کی تقرری اور سیمپل کلیکشن قوانین کی خلاف ورزی ;

سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ مجاھد الاسلام نامی شخص، جس نے 2016 میں آن لائن سرٹیفیکیٹ حاصل کیا تھا (جو اب غیر موثر ہو چکا ہے)، کو دوبارہ ڈوپنگ کنٹرول آفیسرز کی تربیت دینے کی اجازت دے دی گئی — حالانکہ وہ واڈا کا سند یافتہ ٹرینر نہیں ہے۔

یہ اقدام درج ذیل واڈا قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے:

ISTI شق 5.3.1.3 اور 5.3.3.1 کے مطابق:

> “نمونہ لینے والا عملہ صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو مکمل تربیت یافتہ، بااختیار، اور متعلقہ اتھارٹی سے منظور شدہ ہو، جس میں براہ راست مشاہدہ اور عملی تربیت شامل ہو۔”

WADA Guidelines (2014, v1.0):

> “صرف تجربہ کار اور واڈا سے سند یافتہ ٹرینرز ہی DCO کی سرٹیفیکیشن یا ری-سرٹیفیکیشن کے کورسز کروا سکتے ہیں۔”

ایتھلیٹکس فیڈریشن کی نا سمجھی اور رازداری کی پامالی ;

پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن بھی اس بدنظمی میں شامل رہی۔ اس کے جنرل سیکریٹری اپنی نااہلی اور قوانین کی لا علمی سے ڈوپنگ نوٹسز (وقار احمد کے دستخط شدہ) براہ راست اپنے لیٹر ھیڈ پر کھلاڑیوں کے نام و پتہ سمیت NADO اور تمام یونٹس کو بھیج دیے، جس سے کھلاڑیوں کو پیشگی اطلاع مل گئی۔

جبکہ واڈا کا ISTI آرٹیکل 4.6.1 کہتا ہے:

> “کھلاڑی کو ڈوپنگ ٹیسٹ کی پیشگی اطلاع نہیں دی جائے گی۔”

اور آرٹیکل 5.4.1 میں واضح ہے:

> “تمام ڈوپنگ ٹیسٹ بغیر پیشگی اطلاع کے ہونے چاہئیں۔”

یہ رازداری کی خلاف ورزی کھلاڑیوں کو ماسکنگ ایجنٹس یا دیگر طریقوں سے بچنے کا موقع فراہم کرتی ہے، جو کہ اینٹی ڈوپنگ کے مقاصد کو ختم کر دیتا ہے۔ گوہر جیسے کھلاڑی، جو پہلے بھی ڈوپنگ کے شبے میں تھے، کو دوبارہ نوٹس بھیج دیا گیا، اور وہ بھی پہلے سے اطلاع دے کر — یہ فیئر پلے کے اصولوں کی توہین ہے۔

ادارے ADOP کا مکمل ناکارہ ڈھانچہ:

کوئی مستقل چیئرمین نہیں

کوئی بورڈ آف ڈائریکٹرز نہیں

کوئی واڈا سے منظور شدہ رول بُک نہیں

اور نہ ہی کوئی فعال دفتر یا عملہ موجود ہے

اس کے باوجود، ADOP واڈا کی فہرست میں 2008 سے شامل ہے — جو واڈا کے احتسابی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔

ذاتی مفادات کی آڑ میں فائدہ اٹھانے کے الزامات

ذرائع کا کہنا ہے کہ قائم مقام چیئرمین مبینہ طور پر مستقل چیئرمین کی تقرری اور ادارے کی تکمیل کے عمل کو تاخیر کا شکار کر رہے ہیں تاکہ اس عہدے سے وابستہ مالی فوائد اور باقی مراعات جاری رکھ سکیں۔

اس کے علاوہ، PSB کے ڈی جی نے ADOP کا نام بغیر واڈا کی منظوری کے “ADOB” رکھ دیا، جو بین الاقوامی قواعد و ضوابط کی مزید خلاف ورزی ہے۔ مزید یہ کہ ذاتی عملے کو بغیر کسی باضابطہ تقرری کے ADOP میں شامل کیا گیاجو ادارے کو ذاتی مفاد اور اقربا پروری کے مرکز میں تبدیل کر رہا ہے۔

واڈا کی خاموشی — ایک سوالیہ نشان ;

اس تمام صورت حال کے باوجود واڈا خاموش یا لاعلم دکھائی دے رہا ہے۔ واڈا کا فرض بنتا ہے کہ ان سنگین الزامات کی فوری تحقیقات کرے، اصلاحی اقدامات تجویز کرے، اور پاکستان کو قوانین کی مکمل پابندی کا پابند بنائے۔

فوری اصلاحات ناگزیر ہیں ;

اگر پاکستان کو عالمی شرمندگی سے بچانا ہے تو درج ذیل اقدامات فوری ضروری ہیں:

1. حکومت فوراً ناڈو سے دستبرداری اختیار کرے اور اس کی خودمختاری بحال کرے

2. شفاف اور میرٹ پر مبنی تقرریاں عمل میں لائی جائیں

3. PSB کے تمام اہلکاروں کو اینٹی ڈوپنگ معاملات سے الگ کیا جائے

4. ڈوپنگ کیسز کو مکمل رازداری اور واڈا کے ضوابط کے مطابق نمٹایا جائے

5. واڈا خود اس معاملے کی تحقیقات کرے اور اصلاحی منصوبہ دے

ایڈوب ADOP کے گرد منڈلاتے الزامات صرف ایک قومی کھیلوں کا بحران نہیں، بلکہ عالمی سطح پر اینٹی ڈوپنگ نظام کے اصولوں کی سنگین پامالی ہیں۔ اگر فوری اصلاحات نہ ہوئیں تو پاکستان کی کھیلوں کی ساکھ تباہ ہو سکتی ہے۔

جس کی ذمہ داری پاکستان سپورٹس بورڈ میں موجود افلاطونی فلاسفروں پر ھو گی۔ واڈا کو بھی اپنی ساکھ بچانے کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے، ورنہ اس کی غیرجانبدار حیثیت پر سوال اٹھیں گے۔

مصنف کے بارے میں ;

شاہد الحق معروف کھیل دوست فلاحی رہنما، سابق قومی باسکٹ بال کھلاڑی، قومی ٹیموں کے فٹنس کوچ، اور کھیلوں کے معتبر لکھاری ہیں۔ وہ اسپورٹس اینڈ فٹنس ایسوسی ایشن آف پاکستان (SFAP) کے بانی چیئرمین اور SPOFIT یوٹیوب چینل کے میزبان ہیں۔  رابطہ: spofit@gmail.com

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!