نواز گوھر
پاکستان کے نوجوانوں میں مردکھلاڑیوں نے جہاں دنیا میں کھیل کے میدانوں میں ملک کا نام روشن کیا ہے وہی پر خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں، صوبہ خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں پیدا ہونے والی 25سالہ مریم نسیم نے صوبہ کی خواتین کا نام دنیا بھر میں روشن کردیا اور کھیلوں کے مقابلوں میں یہ ثابت کردیا کہ پشاور کی خواتین بھی کسی سے کم نہیں ہیں، دلہ زاک روڈ پشاور سے تعلق رکھنے والی مریم نسیم آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ایک بینک میں نوکری کرتی ہیں تاہم وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے فٹنس کلب میں داخلہ کرلیا تاکہ اپنی فٹنس کو برقرار رکھا جائے ، محنت اور لگن انسان میں ہواورساتھ ہی آگے بڑھنے کاپختہ ارادہ تو انسان دنیا میں ہرمقام حاصل کرسکتا ہے ، وزن کم کرنے اور فٹنس برقرار رکھنے کے ارادے سے فٹنس کلب جائن کرنے کے بعد مریم نسیم نے نہ صر ف وزن کم کیا بلکہ ساتھ ہی ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں میں شرکت کی، مریم نسیم 112کلو وزن تک اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں ،
مریم نسیم نے حال ہی میںآسٹریلیا میں ہونے والے ویٹ لفٹنگ کے 57کلوگرام کے مقابلوں میں سلور میڈل جیت کر ملک کا نام روشن کردیا، مریم نسیم کا کہنا تھا کہ میں پاکستان اور خصوصاً پشاور کی لڑکیوں کو باہمت دیکھنا چاہتی ہوں، اگر لڑکیاں کھیل یا کسی بھی میدان میں ہمت نہ ہارے اور ڈٹ کرمقابلہ کریں تو وہ اپنا لوہا منوا سکتی ہیں۔مریم نسیم اب آسٹریلیا کے شہرمیلبورن میں فٹنس ٹرینر کی خدمات پیش کررہی ہیں جبکہ انہوں نے IAMFIT کے نام سے ایک بلاگ بھی بنا رکھا ہے جس میں وہ خاص طور پر پاکستانی لڑکیوں کو فٹنس مسائل کے بارے میں آگاہ اور فٹ رہنے کے گر بھی سیکھاتی ہیں۔
مریم نسیم کے مطابق جب انہوں نے فٹنس ٹریننگ کی شروعات کی تو انہیں نہ صرف معاشرے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اس کے قریبی دوستوں کی جانب سے بھی ہچکچاہٹ کا سامنا تھا کیونکہ یہ بہت مشکل تھا سب کو سمجھانا یا لوگوں کو مجھے اس بارے میں سمجھنا،تاہم میں خود کو اس قابل سمجھتی تھی کہ میں پاکستانی خواتین کیلئے فٹنس انڈسٹری میں کچھ کرپاؤں گی، میرے اپنے دوستوں نے میرا اور میرے جسم کا مزاق اڑانا شروع کردیا کہ میں اب وزن اٹھاؤنگی، جس سے میں کچھ اداس تو ہوئی تاہم اس سے مجھے آگے بڑھنے اور سیکھنے کاموقع ملا، میں نے قبول کیا کہ جو لوگ مزاق کرتے ہیں وہ غیر جانبدار ہیں اوراس کا احترام نہیں کرتے کہ دوسروں کو اپنی سے کیا کرتا ہے ۔مریم نسیم گزشتہ 9سالوں سے آسٹریلیا کے میلبورن میں اپنی فیملی سے الگ مقیم ہے جبکہ اسکی فیملی پشاور میں رہتی ہے ، مریم سمجھتی ہے کہ وہ ایک ماڈرن پاکستانی خاتون ہے جو کہ اپنے خاندان سے میل و میل دور اکیلی رہائش پذیر ہے ، میرا جذبہ تھا کہ میں صحت اور فٹنس کی انڈسٹری میں کچھ کرکے دکھاؤ اور چند عرصہ قبل میرا وزن کافی زیادہ تھا تاہم اس وقت ارادہ کیا کہ خود کو کم کرنا ہے اور توڑے ہی عرصہ میں 30کلوگرام تک اپنا وزن کم کرنے میں کامیاب ہوئیں، تاہم اس سے میری صحت اور توانائی کی سطح پر کوئی کمی محسوس کی ہے ، یہ مریم نسیم کی زندگی میں ایک اہم نقطہ نظر تھا کہ اس نے محسوس کیا کہ صرف وزن کم کرنا ہی مقصد نہیں بلکہ یہ آپ کے جسم کو خوبصورت بنانے کیساتھ ساتھ روزمرہ کی ورزش آپ کے جسم کی دیکھ بھال اور اس کو مضبوط رکھتی ہے ۔مریم نسیم کا کہناتھا کہ جب پہلی مرتبہ اس خیال سے آئی کہ مجھے خود ایک مزاق لگا تاہم سوشل میڈیا پر بنائے گئے بلاگ سے مجھے لوگوں کی اچھی رائے اور جواب ملتا کہ کس طرح اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے ، جب اپنے کام کا آغاز کیا تو سوشل میڈیا پر اپنا نام بنانے کی کوشش کی ، میرے فیس بک کے دوستوں نے مجھے کہاکہ اپنا کو سوشل میڈیا پر اپنا سب کچھ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے مگر میرے ارادے اور مقاصد مختلف تھے ، ان تمام تاثرات کے باوجود مریم نسیم نے تسلیم کیا کہ سوشل میڈیا آج کی دنیا میں اپنا پیغام پہنچانے کیلئے بہترین پلیٹ فارم ہے ، ہر کوئی آپ کو فٹنس سے متعلق مشورہ دے سکتا ہے ۔
مریم نسیم نے آخر ظاہر کیا کہ وہ پاکستان میں سماجی میڈیا کے ذریعے منسلک کرنے اور اپنے جغرافیائی مقام سے باہر تک پہنچنے کے قابل ہونے سے قاصر ہے ،
میں لوگوں کیلئے ملازمتیں تلاش کرنے ، رہائش اور دیگر پیداواری سرگرمیاں تلاش کرنے کیلئے سوشل میڈا کا استعمال کرتی ہوں اور ساتھ ہی دوسرے پلیٹ فارم متعارف کرانے پر بھی کام کررہی ہوں جو لوگوں کو اپنی فٹنس کے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
مریم کے والدین بیٹی کی کامیابی پر بہت خوش ہیں ان کاکہناتھا کہ جذبے بلند ہوں اور ہمت ہوکچھ کردکھانے کی تو کامیابی ضرور قدم چومتی ہے اور اسکی زندہ مثال مریم نسیم ہے جس نے صرف وزن کم کرنے کیلئے فٹنس کلب جائن کیا اورملک کیلئے سلور میڈل جیت لیا، مریم کی بہن بھی مریم نسیم کی طرح ملک کا نام روشن کرنے کا عزم رکھتی ہیں ان کا بھی کہناتھا کہ صرف سلور میڈل ہی نہیں بلکہ گولڈ میڈل جیتنا میرا مقصد ہے کہ ملک کا نام عالمی دنیا میں روشن کیا جائے ، پشاور کی خواتین کسی بھی میدان میں کسی سے کم نہیں تاہم صرف سہولیات ،ماحول اور پلیٹ فارم کی کمی ہے اگر یہ سب میسر ہوتو خواتین ہر میدان میں مردوں کے ساتھ مقابلے کیلئے تیار ہونگی۔