آج پاکستان نے بیٹنگ آرڈر میں ایک اور محیر العقول تجربہ کر ڈالا۔ پہلے چاروں بلے باز لیفٹ ہینڈڈ بھیجے گئے۔ کرکٹ میں عموماً اس طرح کے تجربات مخالف اٹیک کی صلاحیت کو مدنظر رکھ کر کیے جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان نے صرف فخر زمان کے رنز اور حارث سہیل کی دو اننگز سے یہ اخذ کر لیا کہ ان وکٹوں پہ بائیں ہاتھ سے بلا چلانا مفید رہتا ہے۔
نتیجے میں اس قدر ہی تاثیر ملی جتنی دلیل میں تھی۔
ایسے اچانک تجربات سے راتوں رات کرکٹ کی کیمسٹری نہیں بدل جاتی۔ مبادیات کو چھوڑ کر ایسی کوئی سیڑھی نہیں جس پہ دو قدم چڑھتے ہی آسمان میں تھگلی لگا دی جائے۔ کوئی تو وجہ ہے کہ کرکٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں اوپننگ ایک باقاعدہ شعبہ رہا ہے۔ کیونکہ یہ طے ہے، ساتویں نمبر کا دھواں دار بلے باز یا کوئی چوتھے نمبر کی رن مشین کبھی بھی اچھا اوپنر نہیں ہو سکتی۔
پاکستان کا یہ ہے کہ جس پہ نظر پڑ گئی، اسے بلا تھما کر اوپننگ کے لیے بھیج دیا۔
یہ مت بھولیے کہ چیمپئنز ٹرافی کی تمام فتوحات اور بعد ازاں سری لنکا کے خلاف کلین سویپ بھی خالصتاً بولنگ یونٹ کا کمال تھے۔ اس بیٹنگ پہ تو پہلی بار ذمہ داری کا کچھ بوجھ پڑا ہے۔ اور یہ نیوزی لینڈ کے ہرے بھرے میدانوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتی پھر رہی ہے۔ اور اسی کی دیکھا دیکھی بولنگ بھی خود سے شاکی نظر آ رہی ہے۔
ایسے انتظامی و اہتمامی تجربات کے بعد اگر کوئی چیمپئین ٹیم تین ہفتوں میں ہی عالم بیزار ہو جائے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہے۔ بالآخر یہی تو پاکستان کرکٹ نے طے کیا تھا کہ وہ نتائج سے قطع نظر، بے دھڑک ہو کر ’جگرے‘ والی کرکٹ کھیلیں گے۔ اور اسی کرکٹ نے انہیں چیمپئین بھی بنایا تھا، تو اب اگر پانچ چھ میچ ہرا بھی دیے تو کیا بگڑ گیا؟
ویسے بھی یہ قصہ پاکستان کے لیے کون سا نیا ہے۔ ڈیڑھ سال پہلے ٹیسٹ میں بھی تو چیمپئین بنے تھے، اور تین ہی ماہ بعد چھٹے نمبر پہ کھڑے تھے۔