تور پہ صابن نہ سپینگی ،محبت اور جنگ کے بعد اب کھیل کے میدان میں سب کچھ جائز ہے
مسرت اللہ جان
پشتو زبان کا ایک محاور ہ ہے چہ اوخان ساتے دروازے بہ سترے ساتی ، یعنی اگر اونٹ رکھنے ہیں تو پھر دروازے بڑے رکھنے ہونگے تاکہ آنے جانے میں مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے ،
یہ محاورہ کھیلوں کی ڈائریکٹریٹ سے وابستہ ان افسران کیلئے ہیں جو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ملازمین کے کوٹے میںرہائش پذیر ہیں راقم نے کچھ عرصہ قبل رہائشی ملازمین کی فہرست معلومات تک رسائی قانون کے تحت طلب کی تھی
اسی طرح بجلی اور گیس کے استعمال کے حوالے سے بھی کہ کہاں پر بجلی ڈائریکٹریٹ کی استعمال کی جارہی ہیں اور کونسے گھروں میں گیس کے غیر قانونی کنکشن رہائشی ہاسٹل کے گئے ہوئے ہیں –
رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت طلب کئے گئے اس درخواست پر بعض ملازمین سمیت افسران غصے میں ہیں کہ صحافی کون ہوتا ہے ہم سے یہ پوچھنے کی ہمت رکھے کہ ہم کس کھاتے میں ڈائریکٹریٹ میں رہائش پذیر ہیں اور ہم ائیر کنڈیشنڈ استعمال کرے یا بجلی کے ہیٹر ، یہ درخواست تاحال سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ کے پاس زیر التواءہیں ،
لیکن کچھ دنوں قبل ایک بڑے افسر نے کلاس فور ملازمین کو بٹھا کر کہہ دیا کہ "صحافی کی ٹھکائی کردو”کہ یہ کیوں اس طرح کے رائٹ ٹو انفارمیشن میں معلومات مانگ رہا ہے ، ایک اور افسر نے کلاس فور ملازمین اور کوچز کو بٹھا کرقسم دی کہ صحافی کو ڈائریکٹریٹ کی خبریں کون دے رہا ہے ، جس سے ہماری بدنامی ہورہی ہیں
حالانکہ یہاں پر”پیشو دا غوخے سوکیدارہ شوہ”والا معاملہ ہے بجائے اس کے اپنے آپ کو قانون کے دائرے میں لائے اس طرح کی حرکات نہ صرف ان کے "اے سی آر”خراب کرنے کا باعث بنے گی بلکہ ان کیلئے مزید مسائل پیدا ہونگے.
ویسے راقم ہر روز گھر سے یہی سوچ کر نکلتا ہے کہ شائد آج آخری دن ہو، اس لئے ٹھکائی تو معمولی بات ہے کچھ عرصہ پہلے بھی اسی ڈائریکٹریٹ کے مین گیٹ پر راقم کی ہو چکی ہے لیکن یاد رکھنے کی بات ہے کہ عزت ، ذلت ، موت ، زندگی ، رزق یہ سب کچھ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے ، کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ کے ذمہ داران سمیت کھیلوں کے کچھ ایسوسی ایشن کے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں چی "حرکت کے برکت وی”یعنی حرکت میں برکت ہے ، اسی فارمولے کے تحت ڈائریکٹریٹ کے کچھ ملازمین نے کھلاڑیوں کے حق پر ڈنڈی ماری ہے اور اب ان چیزوں کو چھپانے کیلئے اپنے وسائل خصوصا کھلاڑیوں کو استعمال کررہے ہیں
یہ سمجھتے ہیں اوسپنہ پہ اوسپنہ غوسیگی والا کام چل سکتا ہے یعنی کھلاڑیوں کو کچھ کھلاڑیوں کے خلاف کیا جارہا ہے اور بیانات دئیے جارہے ہیں حالانکہ جو کھلاڑی آج چند مخصوص لوگوں کی سپورٹ میں بیانات دے رہے ہیںآج جن کھلاڑیوں کیساتھ زیادتی ہوئی ہے وہی زیادتی انہی لوگوں کیساتھ بھی ہوسکتی ہے
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ کے ایک افسر کچھ عرصہ قبل زیرعتاب تھے اور ان کی پروموشن کا مسئلہ تھا ، اس کے ساتھ ہونیوالی زیادتی کی خبر کوئی نہیں چلا رہا تھا اس وقت راقم نے بنیادی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے خبر دی تو اس کا مسئلہ حل ہوگیا وہ افسر آج راقم کو کہہ رہا تھا کہ اس وقت آپ اچھے لگتے تھے
اور ابھی برے لگتے ہیں کیونکہ آپ ہمارے حوالے سے خبریں دیتے ہیں ، یعنی جب آپ کے ساتھ زیادتی ہو اور کوئی سپورٹ کرے تو ٹھیک ، لیکن اگر آپ کسی کے ساتھ زیادتی کرے اور دوسرے کو حق کی بناءپر سپورٹ کیا جائے تو صحافی برے ، خیریہاں کہا جاسکتا ہے کہ تور پہ صابن نہ سپینگی.یعنی ظاہری طورپر آپ کچھ بھی کرے ، اندر سے جو کوئی بھی جیسے بھی کردار کاہے ویسے ہی نکلے گا.
بچپن میں ایک کہاوت سنی تھی چی محبت او جنگ کے ہر جائز وی ، یعنی جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز ہوتی ہیں لیکن اگر موجودہ دور میں ہم اس محاورے میں یہ تبدیلی کرے کہ محبت ، جنگ اور کھیلوں کے میدان میں ہر چیز جائز ہوگی تو غلط بھی نہیں ہوکیونکہ حال ہی میں ہونیوالے اسلام آباد کے مقابلوں میں ایسے چول مارے گئے ہیں
جنہیں دیکھ کر افسوس بھی ہوتا ہے اس عمل میں ایسے ایسے لوگ ملوث ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ ہی یاد آتا ہے ، جس طرح چوری ایک روپے کی ہو یا کروڑوں کی چوری چوری ہوتی ہے ، اسی طرح دھوکہ ایک بندے کیساتھ ہو ، یا پورے صوبے کے ساتھ ، دھوکہ دھوکہ ہوتا ہے ، اگر ایسوسی ایشن کے پاس کھلاڑی نہیں تھے
تو پھر دوسرے لوگوں کومقابلے میں لے جانے کی ضرورت نہیں تھی، کہ صرف نام ہو ، ایسا نہ ہو کہ باران پہ تیراہ اوشو ، خرہ ئی دا اکبرپورے یوڑو، اس سے زیادہ آسان الفاظ میں ان لوگوں کو جنہوں نے دھوکے دئیے سمجھانے کی کوشش نہیں ہوسکتی ، باقی تصاویر بھی ہیں ، ویڈیو بھی ہیں اور کاغذات بھی ہیں –
ویسے یہاں پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ چاڑہ کہ دا سرو شی پہ گیڈہ ئی سوک نہ منڈی اور اسی کے ساتھ "چی خدائے پاک نہ وی موڑ کڑے دنیا ئی نہ شی مڑولے.