دیگر سپورٹسمضامین

خیبرپختونخوا کے کھیل، مسائل کے سمندر میں تیرتے کھلاڑی اور کنارے پر سوئے ادارے

تحریر ; غنی الرحمن

خیبرپختونخوا کے کھیل، مسائل کے سمندر میں تیرتے کھلاڑی اور کنارے پر سوئے ادارے

سالانہ گرانٹ بند، اولمپک ایسوسی ایشن خاموش اور کھلاڑیوں کیلئے نیا دھچکا، ڈوپ ٹیسٹ کورس شرط نے سب کو الجھا دیا

تحریر ; غنی الرحمن : خیبرپختونخوا میں کھیلوں کا حال ایسا ہے جیسے ہر روز نئی قسط نشر ہوتی ہو، ایک مسئلہ ابھی پچھلے سین سے نکل ہی نہیں پاتا کہ اگلا مسئلہ بغیر اطلاع کے اسٹیج پر انٹری مار دیتا ہے۔

صوبائی اولمپک ایسوسی ایشن جو کبھی حکومت، کھلاڑیوں اور ایسوسی ایشنز کے درمیان ایک مضبوط پل تھی، آج ایسا لگتا ہے جیسے وہ پل اب صرف نقشے میں باقی ہے۔ فعال نہیں تو کم از کم خاموش ضرور ہے… وہ والی خاموشی جس میں پنکھے کی آواز بھی ڈسٹرب لگتی ہے۔

چار سال سے سالانہ گرانٹ نہیں ملی، اور یہ وہ گرانٹ تھی جس پر ایسوسی ایشنز پوری دنیا نہیں تو کم از کم ایک سیزن گزار ہی لیتے تھے۔ اب حال یہ ہے کہ ایسوسی ایشنزکی حالت بھی وہی ہے جو بجلی کے بل دیکھ کر اکثر شہریوں کی ہوتی ہے۔ یہ تو ہم سے نہ ہو پائے گا

صوبائی ڈائریکٹوریٹ آف سپورٹس نے بھی شاید سوچ لیا ہے کہ اگر سب کچھ انہیں ہی کرنا ہے تو کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کو صرف نام کی حد تک کیوں نہ رکھاجائے؟ صوبے کے تمام بڑے چھوٹے ایونٹس، گیمز، تقریباً سب کچھ ڈائریکٹوریٹ خود آرگنائز کررہا ہے، جبکہ سپورٹس ایسوسی ایشنز کے حصے میں صرف وہ کام آرہا ہے جسے عرفِ عام میں ڈیلی ویجز ڈیوٹیاں کہا جاسکتا ہے۔

ایسوسی ایشنز کے عہدیدار بھی مجبور ہیں، نہ بجٹ، نہ سالانہ گرانٹ، نہ دفاتر، نہ سرگرمیاں… ایسے میں وہ کریں بھی تو کیا؟ یہ وہ مقام ہے جہاں کسی کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچائے بغیر بھی حقیقت بیان کی جاسکتی ہے کہ وہ بے چارے خود بھی یتیم خانہ کھیل کے مستقل مکین بنے ہوئے ہیں۔

نیشنل گیمز قریب ہوں تو اچانک صوبائی اولمپک ایسوسی ایشن جاگ جاتی ہے، پشاور سپورٹس کمپلیکس میں دو ہفتے کیلئے دفتر بھی کھل جاتا ہے، میٹنگز، کاغذی کارروائیاں… سب کچھ۔ لیکن جیسے ہی نیشنل گیمز کا "بارش والا بادل” گزر جائے، دفتر ایسے خالی ہوتا ہے جیسے کبھی کھلا ہی نہیں تھا۔

ایس او پیز، قوانین اوراصول یہ سب باتیں ہم صرف کتابوں میں پڑھتے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ جب اتنے سالوں میں کھلاڑیوں کو ڈوپ ٹیسٹ، ورکشاپس یا آگاہی سیشنز نہیں دیئے گئے تو اچانک شرط سامنے آگئی کہ نیشنل گیمز میں صرف وہی کھلاڑی جائیں گے جنہوں نے ڈوپ ٹیسٹ کا کورس کیا ہوگا،،

صوبائی کھیلوں کی ایسوسی ایشنز ذرائع کا کہناہے کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے میٹنگ میں اس اہم مسلے پر ضرور بات ہوئی ہوگی لیکن ہوسکتاہے کہ ہمارا بندہ اس اہم میٹنگ میں اس اہم بات کرنے کے دوران موبائل فون میں مصروف ہوا ہوگا اوریاوہ اس اہم موضوع کی گفتگو سناہی نہ ہوں،

اب کھلاڑی حیران، ایسوسی ایشنز پریشان اور کوچز سر پکڑ کر بیٹھے۔ کیونکہ صوبے میں آج تک نہ ڈوپنگ آگاہی کےسیمینار ہوئے، نہ کسی ایونٹ میں اس بارے بتانے کی کوشش۔ اب کھلاڑی سے کہا جاتا ہے کہ آپ کورس کریں ورنہ گیمز بھول جائیں… یہ ایسے ہے جیسے کسی کو تیرنے کا سبق نہ دیا جائے اور سمندر کے بیچ میں لے جا کر کہا جائےاب تیر کر دکھا۔

ڈوپ ٹیسٹ ضروری بھی، مشکل بھی، مگر تیاری کون کرے؟۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈوپ ٹیسٹ قوانین ضروری ہیں۔ کھلاڑیوں کیلئے آگاہی لازمی ہے۔لیکن اس کا طریقہ بھی کوئی ہونا چاہیے۔

کھلاڑیوں کی بڑی تعداد پڑھ لکھ نہیں پاتی، اور جو پڑھے لکھے ہیں انہیں بھی اس موضوع پر تربیت کی کبھی سہولت نہیں دی گئی۔ اگر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اس شرط پر سختی کرے، تو خیبرپختونخوا کے بہت سے کھلاڑی نیشنل گیمز سے باہر رہ جائیں گے۔ مسئلہ قوانین کا نہیں، مسئلہ تیاری نہ ہونے کا ہے۔

آخر ذمہ داری لے گا کون؟۔ ایک طرف ایسوسی ایشنز بغیر گرانٹ کے بیٹھیں۔ دوسری طرف اولمپک ایسوسی ایشن خاموش۔تیسری طرف محکمہ کھیل سب کچھ خود کررہا ہے مگر کھلاڑیوں کی بنیادی تربیت رہ گئی ہے۔

اب سوال یہ بنتا ہے کہ کھلاڑیوں کی تربیت کون کرے گا۔؟ ڈوپ ٹیسٹ آگاہی کس کی ذمہ داری ہے؟۔ ایسوسی ایشنز کا حقیقی کردار کب بحال ہوگا؟ اور سب سے بڑھ کر کیا کھلاڑی ہمیشہ ایسے ہی مختصر نوٹس پر بڑے مسائل کا سامنا کرتے رہیں گے؟

یہ کالم کسی کی کردار کشی کیلئے نہیں، نظام کی اصلاح کیلئے ہے۔ کھلاڑی اس ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں، انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دینا سب سے بڑی زیادتی ہوگی۔

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو ڈوپ ٹیسٹ آگاہی پر سختی ضرور کرنی چاہیے، مگر اس سے پہلے پورے ملک، خصوصاً خیبرپختونخوا کے کھلاڑیوں کیلئے کورسز، ورکشاپس اور ٹریننگ پروگرام لازمی شروع کیے جائیں۔ قوانین کا احترام تب ہی ممکن ہے جب عوام کو ان قوانین کی سمجھ بھی ہو۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!