پاکستان ٹیم نے دورہ انگلینڈ2016میں ٹیسٹ سیریز 2-2سے برابر کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں پہلی بار عالمی رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر قبضہ جمایا توخوشی کی شادیانے بجائے گئے، اس بار بھی سیریز 1-1سے برابر ہوئی لیکن مبصرین اور شائقین کو یہ نتیجہ گوارا نہیں ہورہا۔ میری رائے ذرا مختلف ہے، گزشتہ دورے میں پاکستان ٹیم کو مصباح الحق، یونس خان اور یاسر شاہ کی خدمات حاصل تھیں، سرفراز احمد کوجو سکواڈ میسر آیا اس میں 5کرکٹرز نے ٹیسٹ کرکٹ کا مزا بھی نہیں چکھا تھا،کسی کو بھی اس نوآموز ٹیم سے توقعات وابستہ نہیں تھیں،آئرلینڈ میں میزبان ٹیم کو شکست دینے کے بعد انگلینڈ کی مشکل کنڈیشنز میں بھی لارڈز میں فتح نے پاکستان شائقین کو سیریز جیتنے کی بھی امید دلادی، لیڈز میں نتیجہ توقعات کے برعکس نکلنے پر تنقید کے نشتر چلائے جانے لگے، میرے خیال میں کوئی بھی رائے قائم کرنے سے قبل زمینی حقائق کا جائزہ لینا ضروری ہے،پاکستان نے بطور اوپنر امام الحق کو آزمایا، نوجوان بیٹسمین باصلاحیت مگر توقعات کے دہرے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے،نوآموز ہونے کیساتھ چیف سلیکٹر کا بھتیجا ہونے کی وجہ سے بھی ان کے اعتماد کا امتحان تھا،سب سے بھاری ذمہ داری تجربہ کار اظہر علی کے کندھوں پر تھی، اگر وہ سینئر ہونے کا حق ادا کرتے تو شاید امام الحق بھی بہتر کارکردگی دکھانے میںکامیاب ہوتے، بیٹنگ کے فلاپ شو میں اسد شفیق بھی برابر کے حصے دار تھے،حارث سہیل نے اچھے آغاز کئے لیکن بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے،ٹاپ آرڈر کی ناکامی کی صورت میں اننگز کو سنبھالا دینے کی ذمہ داری کپتان سرفراز احمد اٹھاتے رہے ہیں لیکن اس بار ان کا بیٹ بھی مسلسل خاموش رہا،شاداب خان نے بطور بیٹسمین خود اعتمادی دکھائی، بولنگ میں لیگ سپنر یاسر شاہ کا خلا کرنے میں ناکام رہے، بولرز نے لارڈز میں پچ کے مزاج اور کنڈیشنز کو سمجھتے ہوئے اچھی لائن لینتھ پر گیندیں کرائیں، لیڈز میں انگلش بیٹسیمنوں میں سے بیشتر نے مہمان اٹیک کی حکمت عملی کو ناکام کرنے کیلئے کریز سے باہر کھڑے ہونے کی تکنیک اپنائی جس کی وجہ سے سوئنگ کو کھیلنا آسان ہوگیا۔ اس صورتحال میں بہتر تھا کہ پاکستانی بولرز بھی اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرلیتے لیکن انہوں نے لارڈز میں کامیاب ہونے والا پلان نہ چھوڑا، حقیقت یہ ہے کہ تجربہ کار انگلش کرکٹرز نے بیٹنگ اور بولنگ دونوں شعبوں میں نئے امتحان کیلئے نیا ہوم ورک کیا اور کامیابی حاصل کی، دوسری جانب سرفراز الیون گزشتہ ٹیسٹ کی فتح میں کارگر ثابت ہونے والے نسخوں کو ہی آزماتے ہوئے ناکامی سے دوچار ہوئی، حتیٰ کہ محمد عباس جیسے بولر بھی خود کو حالات کے مطابق نہ ڈھال پائے،سیریز میں غلطیاں ہوئی ہیں،بیٹنگ اور دونوں شعبوں میں کارکردگی میں تسلسل لانے کیلئے ابھی بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے، تاہم مجموعی کارکردگی کو مایوس کن قرار نہیں دیا جاسکتا، ماضی میں نامی گرامی بیٹسمینوں پر مشتمل پاکستانی ٹیمیں بھی آسانی سے ہتھیار ڈالتی رہی ہیں، اس بار بھی لیڈز کی ناکامی کو دل کا روگ بنانے کی ضرورت نہیں، پاکستان ٹیم کے تجربے کو دیکھا جائے تو سیریز برابر کرنا بھی حوصلہ افزا ہے جبکہ انگلینڈ کیلئے ہوم گراﺅنڈ پر یہ نتیجہ کسی طور بھی قابل فخر نہیں کہا جاسکتا۔ اظہر علی، اسد شفیق اور سرفراز احمد اپنی کارکردگی سے نوجوان کرکٹرز کیلئے مثال بنیں تو ٹیم میں مستقل مزاجی آسکتی ہے،تینوں سینئرز بہتر سمجھتے ہوں گے کہ خامیوں پر قابو پانے کیلئے انہیں کس طرح کی محنت کرنے کی ضرورت ہے۔