تحریر :سید ابرار حسین
سیاست اور معیشت کے بعد کرکٹ کے ارسطو بھی اہلیان پاکستان کے کرکٹروں کے خلاف ایسے سرگرم ہو گئے ہیں جیسے دشمن کے مورچوں کو نیست و نابود کرنا ہے۔ خدا خدا کرکے 2015 میں دشتگردی کا خاتمہ ہوا اور معشت سمبھلنا شروع ہوئی اسکو 2019میں تیس نحس کردیا گیا۔ 2009 سے پاکستان میں دشتگردی کی وجہ سے کرکٹ دور ہوئی اور ٹیم کی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوئی اور 2017 میں اس میں بہتری آنا شروع ہوئی ہی تھی چیمپئن ٹرافی جیتی T20 ولڈ رینگنگ اور ٹیسٹ رینگنگ میں پہلے نمبر پر آئی۔ اب انہوں نے اسکا بھی کباڑہ کرنے کا مثمم ارادہ کرلیا ہے۔قدرتی اصول یہ ہے کہ جس چیز کو ترقی دینی ہوتی ہے اسے زیادہ سے زیادہ پھیلایا جاتا ہے اس پر مزید انویسٹ کیا جاتا ہے۔مگر پاکستان کے موجودہ ارسطو نے نیا فارمولا نکالا ہے کہ کرکٹ کو محدود کرکے بہتر نتائج حاصل کرنے ہیں۔ نتائج کونسے ہیں زرا ان پر غور تو کر لیں۔ 16 ریجن اور PSL کے باوجود ہونہار کرکٹرکی بھرمار ہے جس شہر قصبے محلے میں چلے جائیں آپ کو ایک سے بڑھکر ایک باصلاحیت کرکٹر ملے گا جنکو تھوڑی سے گرونگ کی ضرورت ہے وہ بھی بابراعظم فخرزمان شاہین شاہ شاداب خان حسن علی بن سکتے ہیں مگر پاکستان کرکٹ بورڈ کی پائپ لائن میں بھی باصلاحیت موجود ہیں جو اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں اور یقینن وہ اپنی باری پر پاکستان کی نمائندگی کر جائیں گے۔ مگر گراس روٹ لیول پر کرکٹرز کی جو کھیپ ہے اور کلب کرکٹ میں مستقبل کی امید لگائے کرکٹرز اب کرکٹ نہیں کھیلیں گے بلکہ مرغی انڈے کٹے چھابڑی اور ٹھیلے لگائیں گے۔ کیونکہ انکو اندازہ ہے کہ 16 ریجن اور 8ڈیپاٹمنٹ میں جگہ بنانے کے لئے کتنی محنت چاہیئے اور کتنی قسمت ۔ ہر ڈیپارٹمنٹ اورریجن سے منسلک کم و بیش 20 کرکٹر اور ہر کرکٹر سے منسلک کم ازکم 6 افراد کا خاندان۔20×24 = 480 ×6=۔ 2880 کرکٹرز بیروزگار ہوئے اور ہر ریجن اور ڈیپارٹمنٹ کے کوچز منیجرز ٹرینرز سپوٹنگ سٹاف کم ازکم 10 لوگ فی ریجن اور ڈیپارٹمنٹ 24×10 = ،240 اسکے علاوہ سکورر امپائرز ملا کر ہزاروں لوگ تو فوری طور پر بے روزگار ہو جائیں گے ۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ اس کھیل نئی نسل کی رغبت ختم ہو جائے گی۔ جیسے ہاکی ہمارا قومی کھیل تھا جو آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ اللہ نہ کرے کرکٹ کا بھی یہی حال ہو جائے۔ یہ سب تباہ کن عمل کوالٹی بہتر کرنے کے نام پر کی جارہی ہے اور مثال اسٹریلیا کی دی جارہی ہے اسٹریلیا کی آبادی اور پاکستان کی آبادی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسٹریلیا ترقی یافتہ اور پاکستان ترقی پزیروں کی لسٹ میں بھی نچلے درجے پر۔ اسٹریلیا میں لوگ شوق کی خاطر کرکٹ کھیلتے ہیں اور پاکستاں میں روزگار کی خاطر کھیلتے ہیں۔ جناب چیرمین کرکٹ بورڈ پاکستان کے حالات سے پوری طرح واقف نہیں ہیں باقی تھینک ٹینک پیٹرن انچیف عمران خان کی زبان سے نکلی ہوئی بات کو حدیث سمجھتا ہے۔ خان صاحب آپ نے اپنی تمام باتوں اور وعدوں پر آٹھ ماہ کے اندر یوٹرم لئے ہیں انشاءاللہ اس بات پر بھی آپ کو سال بعد ضرور یوٹرن لینا پڑے گا۔ انڈیا اسوقت تینوں فارمیٹ میں چیمپئن ہے تو اسٹریلیا ماڈل اپنا کر نہیں بلکہ گراس روٹ کرکٹ پر انویسمنٹ کر کے چیمپئن ہے۔ خان صاحب کرکٹ کی ترقی چاہتے ہو تو ڈسرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کو ادارے بناو ایسوسی ایشن کی نرسریوں کلبوں پر خرچ کرو جو پاکستان کو سکورر امپائرز کمنٹیٹرز سے لیکر کھلاڑیوں تک مٹیریل مہیا کرتے ہیں۔ ایسوسی ایشنوں سے ایڈہاک ازم کا خاتمہ کیا جائے اور سیاسی اثررسوخ کا قلع قمعہ کیا جائے۔ بند کمروں میں بیٹھ کر فیصلے مسلط کرنے کی روش کو ترک کیا جائے۔ ایسوسی ایشنوں میں مونیٹری سسٹم لایا جائے تاکہ بوگس کلبوں کا خاتمہ ہو اور کرکٹ ایسوسی ایشنوں سے ووٹ کی سیاست کا خاتمہ ہو میرٹ پروان چڑسکے۔