تہران (سپورٹس لنک رپورٹ)ایران کی پہلی خاتون باکسر صدف خادم نے حکام کی جانب سے کوچ سمیت ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے پر وطن واپسی منسوخ کر دی۔خبرایجنسی کے مطابق آفیشل باکسنگ میں شرکت کرنے والی پہلی ایرانی خاتون صدف خادم کی ترجمان کا کہنا تھا کہ تہران میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے گئے ہیں اس لیے واپسی کا ارادہ ترک کردیا ہے۔صدف خادم کے علاوہ فرانس میں مقیم ایرانی نژاد سابق عالمی چمپیئن باکسر مہیار منش پور نے بھی ایرانی واپسی کا ارادہ کرلیا تھا لیکن ان کے بھی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے گئے ہیں۔
مہیار کے ترجمان کلارا ڈالے کا کہنا تھا کہ مہیار منیش پور فرانسیسی شہری ہیں اور وہ صدف خادم کے ہمرا ایران جانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں تھے لیکن ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے گئے ہیں۔خیال رہے کہ صدف خادم نے گزشتہ روز باکسنگ کے ایک مقابلے میں مقامی باکسر اینی چوون کو شکست دے دی تھی۔پیرس میں موجود 24 سالہ صدف نے اگلے ہفتے کے آغاز میں اپنے آبائی علاقے منیش پور واپس آنے کی تیاری کرلی تھی۔فرانسیسی شہری کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے پر فرانس کی وزارت خارجہ کی جانب سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا تاہم ایرانی سفارت خانے کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے۔پیرس میں ایرانی سفارت خانے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ انہیں صدف خادم اور ان کے کوچ کے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کی تصدیق کے لیے درخواست آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں باکسرز کی وطن واپسی کے ارادے منسوخی کے حوالے سے ردعمل کی درخواست کی گئی ہے تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔یاد رہے کہ جنوری 2017 میں سوشل میڈیا میں اپنی تصاویر جاری کرنے پر ایرانی حکام نے خاتون باڈی بلڈر گرفتار کرلیا تھا۔برازیل میں منعقدہ ریو اولمپکس 2016 میں ایران کی خاتون ایتھلیٹ کیمیا علی ذادہ کانسی کا تمغہ حاصل کرکے اولمپکس مقابلوں میں میڈل حاصل کرنے والی پہلی ایرانی خاتون بن گئی تھیں۔کیمیا علی زادہ نے ریو اولمپکس میں جوڈو مقابلوں میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا جس پر ایرانی صدر حسن روحانی نے انھیں مبارک باد دی تھی۔ایران میں گزشتہ برس ایشین چمپیئنز لیگ فٹ بال کے فائنل میں سیکڑوں خواتین کو شرکت کی اجازت دے دی گئی تھی۔اس سے ایک ماہ قبل ہی 100 خواتین کو ایران اور بولیویا کے درمیان ایک دوستانہ میچ دیکھنے کی اجازت دی گئی تھی تاہم فوری بعد پابندی کو بحال کر دیا گیا تھا۔ایرانی خواتین اور لڑکیوں پر 1981 میں مردوں کے کھیلوں میں شرکت پر پابندی عائد کی گئی تھی تاہم دیگر ممالک کی خواتین کو اس طرح کے میچوں میں شرکت کی اجازت دی جاتی رہی ہے۔