پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی کا کہنا ہے کہ نیا نظام لارہے ہیں جس میں فٹنس اور کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ پاکستان کا فرسٹ کلاس نظام مثالی ہوگا۔ خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے کہا کہ نئے ڈومیسٹک ڈھانچے کا مسودہ اس وقت حکومت کے پاس ہے جہاں سے قانون سازی مکمل ہونے کے بعد اسے نافذ کردیا جائے گا۔ یہ شفاف پروفیشنل کوالٹی کرکٹ والا سسٹم ہوگا جس میں کسی سفارشی کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔وہ 92 کرکٹرز پاکستان کی جانب سے فرسٹ کلاس کھیلیں گے۔ جن میں سے کوئی بھی پاکستان کی نمائندگی کرسکے گا۔ یہ نظام پاکستان کرکٹ کی سمت کا تعین کرے گا۔ جدید دور سے ہم آہنگ یہ نظام انقلاب برپا کردے گا۔اپنے انٹرویو میں احسان مانی نے کہا کہ فرسٹ کلاس کھیلنے والوں کو ڈپارٹمنٹس سے زیادہ پیسے ملیں گے۔ قانون سازی مکمل ہوتے ہی نیا نظام لاگو ہوجائے گا۔ احسان مانی نے کہا کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کھلاڑیوں کی فٹنس ہے۔
ہم فٹنس میں دنیا کے کئی ملکوں سے پیچھے ہیں۔ نئے نظام میں فٹنس اور کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ پاکستان کا فرسٹ کلاس نظام مثالی ہوگا۔اس وقت اس سسٹم پر تنقید ہورہی ہے لیکن یہی نظام پاکستان کرکٹ کو بہت اوپر لے جائے گا۔ سفارش، اقرباپروری کا خاتمہ کرکے میرٹ اور پروفیشنل ازم پر مبنی نظام لارہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ قائد اعظم ٹرافی دو حصوں میں کرانے پر غور کررہا ہے۔ قائد اعظم ٹرافی کو سری لنکا کی ٹیسٹ سیریز کی سلیکشن کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ ستمبر کے وسط میں سیزن کا آغاز ہوگا، چار راؤنڈز کے بعد نیشنل ٹی ٹوئنٹی کروایا جائے گا تاکہ آسٹریلیا کے دورے کے لئے محدود اوورز کے لئےٹیم منتخب کی جائے۔قومی ٹی ٹوئنٹی کے بعد قائد اعظم ٹرافی کے بقیہ راونڈز کے میچز ہوں گے۔
پی سی بی سپر لیگ کے ڈرافٹ سے قبل نیشنل ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کرانے کا خواہاں ہے۔ وہی کھلاڑی ڈرافٹ میں شامل ہوں جو قومی ٹی ٹوئنٹی میں شریک ہوں گے۔ پاکستان ٹیم میں آنے کے لئے قومی سیزن میں شرکت لازمی قرار دی جائے گی۔ ایسے کھلاڑیوں کی پاکستانی ٹیم میں سلیکشن پر غور نہیں ہوگا جو قومی سیزن میں شرکت نہیں کریں گے۔سری لنکا سے ٹیسٹ سیریز کی وجہ سے چار روزہ ٹورنامنٹ کو بھی آگے نہیں کیا جاسکتا۔ قومی انڈر 19 مقابلے ستمبر کے پہلے ہفتے سے شروع کرکے اکتوبر کے وسط تک مکمل کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔قومی سلیکشن کمیٹی کے لئے دو تجاویز زیر غور ہیں۔ ایک تجویز یہ ہے کہ چیف سلیکٹر کے ساتھ بقیہ چھ سلیکٹر چھ صوبائی ٹیموں کے ہیڈ کوچ ہوں گے۔