وفاق کی نئی پانچ سالہ سپورٹس پالیسی کا ڈرافٹ ،
آٹھارھویں۔ ترمیم کے بعد آئی پی سی کے کردار پر سوالیہ نشان
مسرت اللہ جان
حکومتِ پاکستان نے قومی کھیل پالیسی 2024-2029 کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلے میں پالیسی ڈرافٹ تیار کرلیا گیا ہے ، پانچ سال نئی سپورٹس پالیسی کا مقصد ملک کو ایک نمایاں کھیلوں کی قوم میں تبدیل کرنا ہے۔
اس پالیسی کا مقصد کھیلوں میں اعلیٰ معیار، شمولیت، رسائی، قومی فخر اور اتحاد کو فروغ دینا ہے۔ 2028 اولمپکس اور 2026 ایشین گیمز جیسے عالمی اسٹیجز پر کامیابی حاصل کرنے کے عزم کے ساتھ،
یہ پالیسی پاکستان کے کھیلوں کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع لائحہ عمل فراہم کرتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک ڈرافٹ بھی وزارت بین الصوبائی رابطہ نے تیار کی ہے.
کم و بیش تئیس صفحات پر مشتمل نئی سپورٹس پالیسی کے ڈرافٹ میں منسٹری آف انٹرپراونشل کوارڈینیشن نے تیار کی ہے اور پالیسی کے حوالے سے جاننے کیلئے پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر اسلام آباد نے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا،
اور ان سے تجاویز بھی میٹنگ میں حاصل کی جارہی ہیں ، ان میں چاروں صوبے سمیت کھیلوں کی مختلف ایسوسی ایشنز اور فیڈریشنز تک شامل ہیں-جن کے سربراہوںکو اسلام آباد بلوا کر ان سے تجاویز لی جارہی ہیں ،اور یہ سب کچھ آئی پی سی کروا رہی ہیں.
نئی مجوزہ ڈرافٹ بالیسی میں سٹیرنگ کمیٹی کے قیام کیلئے تجاویز دی گئی ہیں جس کے چیئرمین وفاقی وزیر برائے سپورٹس اور صوبائی وزراء، سپورٹس سیکرٹریز اور ڈی جی ممبران کی حیثیت سے کام کرینگے
اسی طرح مختلف ٹاسک فورس کے قیام کی بھی تجاویز دی گئی ہیں جس میں کھیلوں کی تنظیموں کی آئینی سمیت انٹی ڈوپنگ کے حوالے سے بھی کام کرنے کیلئے منصوبے ترتیب دئیے گئے ہیں.
اسی طرح سپورٹس انسٹی ٹیوٹ کے قیام بھی نئی سپورٹس پالیسی کا حصہ ہے جس میں لیڈنگ کردار پی ایس بی ادا کرے گی کھلاڑیوں کی بہتری کیلئے سپورٹس انڈوومنٹ فنڈز اورنیشنل سپورٹس ڈیٹا بیس بھی قائم کیا جائیگا –
نئی وفاقی سپورٹس پالیسی میں خواتین کھیلوں کی جانب راغب کرنے کیلئے خواتین کیلئے علیحدہ فنڈز قائم کرنے ،این جی اوزاورسول سیکٹرزکواس میں شامل کرنے اور سپیشل افراد کیلئے سہولیات کی فراہمی پر بھی تجاویز دی گئی ہیں .
وفاقی حکومت کی پانچ سالہ سپورٹس پالیسی کے ڈرافٹ میں روایتی اور علاقائی کھیلوں کے فروغ کیلئے صوبائی حکومتوں سے رابطہ کاری کیلئے بھی تجاویز دی گئی ہیں
اسی طرح کھلاڑیوں کی انٹرنیشنل ایکسچینج پروگرام اور صوبوں کے مابین رابطہ کاری کیلئے پی ایس بی کو لیڈنگ کردار ادا کرنے میں مجوزہ ڈرافٹ میں علیحدہ ٹاسک دیا گیا ہے حیرت انگیز طور پر ای سپورٹس کے ٹورنامنٹ کے انعقاد ،
سپانسرشپ کیلئے ٹاسک فورس کے قیام سمیت کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے ہمارا کھلاڑی پروگرام کا سلسلہ شروع کرنے کو بھی سپورٹس کی ڈرافٹ میں شامل کیا گیا ہے –
وفاقی حکومت کی جانب سے نئی سپورٹس پالیسی میں سپورٹس تھنک ٹینک کے قیام کیلئے تجاویز شامل کی گئی ہیں جس میں پی ایس بی کو لیڈنگ کردار دیتے ہوئے کھیلوں سے وابستہ صحافیوں ، اکیڈمیز کو بھی شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہیں
وفاقی حکومت کی جانب سے نئی سپورٹس پالیسی میںکے ڈرافٹ میں کھیلوں کے ڈھانچے کی ترقی، گورننس کی اصلاحات، کھلاڑیوں کی شناخت اور ان کی مضبوطی پر زور دیا گیا ہے۔
اس پالیسی میں کھیلوں کی تنظیموں میں شفافیت اور ڈوپنگ کے خلاف قوانین پر سختی سے عمل کرنے کے عزم کو بیان کیا گیا ہے۔
کھیلوں میں انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ایک آزاد اینٹی ڈوپنگ ایجنسی آف پاکستان (ADOP) قائم کی جائے گی۔لیکن یہ کتنی آزاد ہوگی ا س بارے میں مکمل طور پر خاموشی ہے کیونکہ مجوزہ ڈرافٹ پالیسی میںآئی پی سی اور پی ایس بی کو سب سے زیادہ اختیاردئیے گئے ہیں .
نئی مجوزہ پالیسی کے ڈرافٹ میں ایسوسی ایشنز و فیڈریشن کے عہدوں کومکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔حالانکہ کھیلوں سے وابستہ ایسوسی ایشن و فیڈریشن کا بہت بڑا کردار ہے. یہ ایک اہم مسئلہ ہے،
کیونکہ گزشتہ 30 سالوں سے مختلف فیڈریشنوں اور ایسوسی ایشنوں میں لوگ موجود ہیں، اور یہ ایک فیملی بزنس کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ اس پالیسی میں تبدیلی لائی جائے تاکہ کھیلوں کی قیادت میں حقیقی پیشہ ور افراد کو آگے آنے کا موقع مل سکے۔اور یہ چیز بھی نئی مجوزہ پالیسی میں شامل کرنے کی ضرورت ہے.
ابھی تک ہونیوالے مختلف سٹیک ہولڈرز کے اجلاسوں میں سب سے زیادہ اعتراض آئی پی سی کے حوالے سے آیا ہے کہ صوبوں کو اختیارات دینے کے بعد وفاق کب تک صوبوں کے وسائل پر قبضہ جمائے رکھے گا
اسی طرح ان کے کردار سے متعلق مختلف ایسوسی ایشن و فیڈریشن کے سرکردہ افراد نے اعتراضات بھی اٹھائے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر جووفاق کا کھیلوں کے حوالے سے سب سے بڑا ادار ہ ہے کی کارکردگی اور حالیہ مہینوں میں ہونیوالے کھیلوں کے شعبے میں پیدا ہونیوالے مسائل کے بعدوفاق کے اس ادارے پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں ،
سپورٹس پالیسی کاغذات کی حد تک توبہترین ہے لیکن ملک کے مختلف حصوں میں قائم پی ایس بی سنٹرز جنہیں اسلام آباد سے آئی پی سی کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے عوام پربوجھ بنے ہوئے ہیں
جنہیں کھیلوں کے فروغ سے کوئی دلچسپی نہیں البتہ انہیں سپورٹس کی سہولیات سے حاصل ہونیوالی آمدنی سے غرض ہے جس کی بڑی مثال پی ایس بی کوچنگ اینڈ ٹریننگ سنٹر پشاور بھی ہے جنہیں پی ایس بی بورڈ کی ہدایت پر گذشتہ ایک ماہ سے مکمل طور پر والی بال ،
بیڈمنٹن اور کراٹے سمیت سکواش کے کھلاڑیوں پر بند رکھا گیا ہے اوریہی صورتحال کم و بیش پورے ملک میں چل رہی ہیں .کیونکہ بھاری بھر کم فیسیں کھلاڑی ادا نہیں کرسکتے.
وفاقی حکومت کھیلوں کے فروغ میں پی ایس بی کے بجائے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو شامل کرکے کھیلوں کے فروغ کرسکتی ہیں لیکن اس کیلئے سپورٹس پالیسی کے نفاذ کیساتھ ساتھ انہیں اپنے متعلقہ ریجنل سنٹرز صوبوں کے حوالے کرنے ہونگے