اتھلیٹکسمضامین

یاسر سلطان اور کوچ فیاض بخاری ; پاکستان کے جیولن کا نیا سنگ میل

تحریر: کھیل دوست, شاھدالحق

یاسر سلطان اور کوچ فیاض بخاری—پاکستان کے جیولن کا نیا سنگ میل

تحریر: کھیل دوست, شاھدالحق

الحمدللہ پاکستان کے لئے ایک اور فخر کا لمحہ آیا ہے۔ جیولن تھرو میں ابھرنے والے نوجوان محمد یاسر سلطان نے جنوبی کوریا کے شہر موقپو میں ہونے والی ایشین ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں77.43 میٹر کی تھرو کے ساتھ برونز میڈل جیت کر پوری قوم کو ایک نئی خوشخبری دی۔ یہ کامیابی نہ صرف یاسر کے کیریئر کا ایک اور روشن باب ہے بلکہ پاکستان کے ایتھلیٹکس کے لئے ایک تاریخی سنگ میل بھی ہے۔

یاسر سلطان کا سفر ایک عام نوجوان سے عالمی سطح پر میڈل جیتنے والے کھلاڑی تک کا ہے۔ 2016 میں جب انہوں نے صرف 67 میٹر کی ایک سادہ سی تھرو کے ساتھ کھیل کا آغاز کیا تو شاید کسی نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ چند برسوں میں یہی نوجوان امام رضا کپ ایران میں گولڈ میڈل، 2023 کی ایشین چیمپئن شپ میں برونز میڈل اور

ذاتی بہترین 79.93 میٹر کی تھرو، پھر 2024 میں سلور میڈل، اور اب 2025 میں ایک اور برونز میڈل لے کر ملک کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ ان کامیابیوں نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، بس اسے ڈھونڈنے اور سنوارنے کی ضرورت ہے۔

یاسر سلطان کے اس سفر کے پیچھے ایک ایسی شخصیت کھڑی ہے جس کا ذکر کئے بغیر کہانی ادھوری رہتی ہے۔ یہ ہیں کوچ فیاض حسین بخاری، وہ عظیم استاد جنہوں نے پہلے ارشد ندیم جیسے عالمی ریکارڈ ہولڈر کو تراشا اور اب یاسر سلطان جیسے ایک اور سپر اسٹار کو تیار کیا ہے۔

پاکستان کی اسپورٹس ہسٹری میں یہ اعزاز صرف بخاری صاحب کو حاصل ہے کہ ان کی کوچنگ میں دو مختلف کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر تمغے لے کر آئے۔ یہ کامیابی اس بات کا اعلان ہے کہ اگر صحیح کوچنگ، لگن اور وژن کے ساتھ نوجوانوں کو تیار کیا جائے تو پاکستان دنیا کی کسی بھی بڑی ایتھلیٹکس پاور سے پیچھے نہیں۔ یہی وجہ کی فیاض بخآری جیسے عظیم کوچ فیاض بخآری کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا جائے ۔

یہاں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جنرل (ر) اکرم ساہی نے اپنی قیادت میں ایتھلیٹکس فیڈریشن کو جس سمت ڈالا، اس نے ایسے کھلاڑیوں کو مواقع دئیے۔ ان کی ذاتی دلچسپی اور تجربے نے بخاری جیسے کوچز اور یاسر جیسے کھلاڑیوں کے لئے راستے کھولے۔

بخاری کی محنت اور ساہی صاحب کی رہنمائی نے مل کر وہ پلیٹ فارم دیا جس کے ذریعے پاکستان کو اب ایک کے بعد ایک کامیابی مل رہی ہے۔ یہ مثال ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ جب کھلاڑی، کوچ اور قیادت ایک سوچ اور ایک وژن کے ساتھ آگے بڑھیں تو نتائج ہمیشہ شاندار نکلتے ہیں۔

یاسر سلطان کی یہ برونز میڈل کامیابی محض ایک میڈل کی خبر نہیں بلکہ ایک پیغام ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ پاکستان کے پاس ایک اور سپر اسٹار ہے جسے اگر مسلسل سہولتیں، غیر ملکی تربیت اور عالمی معیار کی تیاری ملے تو وہ مستقبل میں اولمپکس سمیت کسی بھی بڑے مقابلے میں سونے کا تمغہ جیت سکتا ہے۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن، ایتھلیٹکس فیڈریشن اور وزارتِ کھیل ایک متحدہ حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں۔ اسکول اور کالج سطح پر جیولن تھرو کے پروگرامز شروع ہوں، ریجنل اکیڈمیز قائم کی جائیں، اور کوچ بخاری جیسے ماہرین کو ملک گیر سطح پر اپنی مہارت منتقل کرنے کے لئے موقع دیا جائے۔

جبکہ اس کھیل میں ماہر سپورٹنگ سٹاف کو بھی بین القوامی تربیت دے کر ایک عالمی معیار کی جیولن تھرو اکیڈمی بنائی جاۓ جو فیاض بخآری جیولن اکیڈمی کے نام سے منسوب ھو۔ یقیناً یہ ریجنل سطح پر ایک منفرد جیولن سینٹر ھو گا جہاں بیرون ملک سے بھی لوگ ٹریننگ کے لئے آئیں گے اور ملک میں زرِمبادلہ بھی حاصل ھو گا۔ اس پروگرام کو مکمل پروفیشنل اور لگن سے کرنے کی ضرورت ھے۔

دنیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ فن لینڈ اور جرمنی نے جیولن تھرو کو کمیونٹی کلبز اور اسکولوں میں پروان چڑھایا اور آج وہاں یہ کھیل قومی شناخت بن چکا ہے۔ بھارت نے نیرج چوپڑا کی کامیابی کو ایک قومی منصوبے میں بدل دیا اور اب ہر سطح پر اس کھیل کو فروغ دے رہا ہے۔ پاکستان بھی یاسر اور ارشد جیسے کھلاڑیوں کی بدولت اسی راستے پر چل سکتا ہے۔

اب یہ ذمہ داری نئے صدر وجاہت صاحب پر بھی ہے کہ وہ گروپ بندیوں کو ختم کر کے سب کو اکٹھا کریں اور ایتھلیٹکس کو ایک قومی مشن کی شکل دیں۔ یہ وقت ذاتی مفادات کا نہیں بلکہ اجتماعی وژن اور قومی کامیابی کا ہے۔

یاسر سلطان اور ان کے کوچ فیاض بخاری نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے پاس وہ بنیاد موجود ہے جس پر ایک مضبوط مستقبل تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ تمام ناراض اتھلیٹکس ماہرین اور پروفیشنلز کو یکجا کر کے ہی بہترین پروگرام ترتیب دیا جا سکتا ھے۔

یاسر کی تازہ برونز میڈل فتح اس بات کی نوید ہے کہ پاکستان کا جیولن تھرو صرف ایک کھلاڑی یا ایک کوچ کی کہانی نہیں رہا، بلکہ ایک نئی تحریک بن سکتا ہے۔ اگر ہم نے آج سے سنجیدہ فیصلے کئے تو آنے والے برسوں میں یہ کھیل پاکستان کی پہچان بن سکتا ہے اور ہماری نئی نسل عالمی سطح پر فخر سے کہہ سکے گی کہ جیولن تھرو میں پاکستان ایک طاقت ہے۔
پاکستان زندہ باد!

تحریر کنندہ شاھدالحق ایک سینئر سپورٹس رائٹرز و جرنلسٹ ھیں جو خود قومی سطح کے پاسکٹ بال کھلاڑی رہے جبکہ کھیلوں سے ترقی و امن کے علمبردار ھیں ۔ کئی قومی ٹیموں کے فٹنس کوچ اور ڈویلپمنٹ ڈائریکٹر رہے چکے ھیں۔ رابطہ پہلے لئے

فون نمبر- 03335161425 ; ای میل- spofit@gmail.com  ; www.youtube.com/spofit

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!