کھیلوں کی نئی سہ ماہی — فائلوں میں کھیل، میدانوں میں خاموشی!

کھیلوں کی نئی سہ ماہی — فائلوں میں کھیل، میدانوں میں خاموشی!
مسرت اللہ جان
الحمد للّٰہ! نئی سہ ماہی شروع ہو چکی ہے۔ دفتر میں چائے کے کپ لبریز، فائلوں پر گرد نئی، اور “پروجیکٹس” کے نام پر پرانی اسکیموں کو نیا لیبل لگا دیا گیا ہے۔ پہلی سہ ماہی — جولائی، اگست، ستمبر — ایک خواب کی طرح گزری۔
کسی نے دیکھا بھی نہیں کہ اس دوران کوئی کھیل ہوا یا بس کھیل ہی کھیلا گیا۔ اب اکتوبر اور نومبر کا وقت ہے، یعنی نئی سہ ماہی کے آغاز کا مقدس موقع۔ کاغذی ترقی کے دعووں کا موسم پھر سے شروع ہو گیا ہے۔
وزارتِ کھیل کے دفاتر میں اب اصل کھیل شروع ہوتا ہے۔ یہاں کھلاڑیوں کے بجائے فائلیں دوڑتی ہیں، اور گول ہونے کی بجائے “سگنیچر” ہوتے ہیں۔ ڈی جی اسپورٹس کے دفتر میں کسی فائل کا “پاس” ہونا کسی کھلاڑی کے ورلڈ کپ جیتنے سے کم نہیں۔
ایک افسر نے تو حال ہی میں فائل پر دستخط کر کے کہا، “یہی ہے اصلی کھیل۔” کھیلوں کے میدانوں میں خاموشی ہے۔جھاڑیاں بڑھ رہی ہیں، مگر وہاں کے “انچارج” اب بھی اپنی کارکردگی رپورٹ میں لکھتے ہیں:“پچھلے تین مہینوں میں ضلع میں کھیلوں کی سرگرمیاں بھرپور رہیں۔”یعنی شاید کسی نے گلی میں کرکٹ کھیلی ہو تو وہ بھی ڈی ایس او کے کھاتے میں چلی گئی۔
خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع میں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز اپنی اصل ڈیوٹی پر نہیں، بلکہ “خدمتِ دیگرہ” میں مصروف ہیں۔کوئی کسی پروٹوکول افسر کے طور پر کام کر رہا ہے، کوئی پریس کانفرنس میں “تصویر کے بیچ” نظر آ رہا ہے۔ کچھ تو اتنے مصروف ہیں کہ جب ان سے پوچھا جائے، “سر! کھیلوں کے مقابلے کب ہوں گے؟” تو جواب آتا ہے، “ابھی فنڈز نہیں آئے، ویسے فائل بنی پڑی ہے۔” فائل؟ جی ہاں، یہی وہ جادوئی شے ہے جو ہر کام کا بہانہ بھی ہے اور جواز بھی۔
اگر ڈی جی اسپورٹس کبھی دل پکا کر لیں اور سب ڈی ایس اوز سے پوچھیں کہ “چار مہینوں میں کتنے مقابلے ہوئے؟” تو سب سے پہلے انہیں واٹس ایپ پر تصویریں موصول ہوں گی۔ کوئی بینر کے ساتھ کھڑا ہے، کوئی ٹرافی اٹھائے ہوئے، اور نیچے کیپشن: “Under the supervision of District Sports Office…” لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثر ایونٹس کسی پرائیویٹ اکیڈمی یا مقامی تنظیم کے ہوتے ہیں۔ ہمارے افسران وہاں جاتے ہیں، دو منٹ تقریر کرتے ہیں، فوٹو کھنچواتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ “اب کارکردگی مکمل!”
ایک مشہور واقعہ ہے، ایک ضلع کے ڈی ایس او صاحب ایک نجی فٹبال ٹورنامنٹ میں گئے۔ ٹرافی جیتنے والی ٹیم کے ساتھ تصویریں لیں، اور اگلے دن رپورٹ میں لکھ دیا:“ضلعی سطح پر کامیاب فٹبال ایونٹ کا انعقاد کیا گیا۔”
جب کسی نے پوچھا کہ “یہ ٹورنامنٹ تو مقامی این جی او نے کیا تھا!” تو بولے، “جی، لیکن میں وہاں موجود تھا، اس لیے میرا بھی حصہ ہے!”کھیلوں کے فنڈز کا حال بھی کھیلوں جیسا ہی ہے — کبھی ادھر، کبھی ادھر۔ پینتیس اضلاع میں تنخواہیں تو باقاعدگی سے جا رہی ہیں، مگر میدانوں میں خاموشی ہے۔ کہا جاتا ہے، “کھیلوں پر خرچ زیادہ ہوتا ہے، آمدن کم۔” لیکن جب پوچھا جائے کہ خرچ کہاں ہوتا ہے؟ تو جواب آتا ہے، “دیکھیں، یہ ایک طویل عمل ہے۔” یعنی ترجمہ: “ہم بھی نہیں جانتے، مگر آپ مت پوچھیں۔”
سپورٹس کمپلیکسز کا حال دیکھیں تو لگتا ہے جیسے کسی پرانی فلم کا سیٹ ہو۔ گھاس غائب، لائٹس بند، عملہ محدود، مگر اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگر کسی کمپلیکس میں بجلی کا بل لاکھوں کا آتا ہے، تو رپورٹ میں لکھا جاتا ہے:“بین الاقوامی معیار کی لائٹنگ بحال کی گئی۔”بس، یہ ہے “بجٹ کا جادو”۔
ایک بار ایک ضلع میں کھلاڑیوں نے درخواست دی کہ “ہمیں والی بال نیٹ اور بال دی جائے۔” دفتر سے جواب آیا: “فنڈز نہیں ہیں، اگلی سہ ماہی میں دیکھیں گے۔” اگلی سہ ماہی میں پوچھا گیا تو کہا گیا: “اب یہ پچھلی سہ ماہی کا معاملہ ہے، نیا بجٹ آیا تو دیکھیں گے۔”یوں کھلاڑی ہر سہ ماہی میں امید کا فائنل کھیلتے رہتے ہیں، مگر “فنڈز” ہمیشہ جیت جاتے ہیں۔
بعض ڈی ایس اوز کا تو حال ایسا ہے جیسے وہ خود “بیوروکریسی کپ” میں کھیل رہے ہوں۔ کبھی اسلام آباد میں “میٹنگ”، کبھی سوات میں “ورکشاپ”، کبھی ایبٹ آباد میں “انسپیکشن”۔ان کے دفتر میں اگر کوئی کھلاڑی آ بھی جائے تو کلرک کہتا ہے، “صاحب باہر گئے ہیں، آپ واٹس ایپ پر میسج چھوڑ جائیں۔” اگر کھیلوں کی وزارت کے دفتر میں جائیں تو ہر دیوار پر چارٹ لگے ہیں:
کھیلوں کی فروغی منصوبہ بندی‘ یوتھ انگیجمنٹ اسٹریٹیجی ‘ضلعی سطح پر ترقیاتی اہداف ‘ بس فرق اتنا ہے کہ ان چارٹس پر جو تصویریں ہیں، وہ پانچ سال پرانی ہیں۔ کوئی بچہ جو تصویر میں “جونیئر ایتھلیٹ” کے طور پر دکھایا گیا تھا، اب شاید خود کسی دفتر میں کلرک لگ چکا ہے۔نئی سہ ماہی میں پھر وہی منصوبے، وہی وعدے، وہی نعرے — “نوجوانوں کو مواقع دیں گے!” لیکن مواقع ہمیشہ “کسی اور” کو مل جاتے ہیں۔
کبھی کسی نے وزارتِ کھیل کو قریب سے دیکھا ہے؟ یہ وہ سفید ہاتھی ہے جو دفتر کے کمرے میں بیٹھ کر چائے پیتا ہے، کبھی کبھی دستخط کرتا ہے، اور باقی وقت رپورٹس پڑھنے کا ڈرامہ کرتا ہے۔افسران کی میٹنگ میں گفتگو کچھ یوں ہوتی ہے: “ہمیں نوجوانوں کے لیے پروگرام لانچ کرنا ہے۔” “جی بالکل، مگر بجٹ ابھی آیا نہیں۔” “تو رپورٹ میں لکھ دو کہ لانچ کر دیا گیا ہے۔”اسی کو کہتے ہیں “کاغذی انقلاب”!
سپورٹس کمپلیکسز میں آمدنی تو ہوتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ خرچ کہاں ہوتا ہے؟ کچھ کمپلیکسز میں ماہانہ آمدنی لاکھوں میں ہے، مگر وہاں ایک بھی معیاری کھیل کا پروگرام نظر نہیں آتا۔کہا جاتا ہے: “فنڈز سے مرمت ہو رہی ہے۔” مگر وہ مرمت کب مکمل ہوگی، یہ کسی کو نہیں معلوم۔ ایک افسر نے تو ہنستے ہوئے کہا: “ہم مرمت اتنی آہستہ کرتے ہیں کہ اگلی سہ ماہی کا بجٹ خود بخود شامل ہو جائے۔”
اب جب نئی سہ ماہی شروع ہو گئی ہے، تو سب دفاتر میں ایک ہی ہلچل ہے۔ “رپورٹ تیار کرو!” پچھلی سہ ماہی میں کچھ ہوا ہو یا نہیں، رپورٹ بنے گی ضرور۔ پچھلے سال ایک ضلع نے “ضلعی ہاکی چیمپئن شپ” کی رپورٹ جمع کرائی۔ تحقیق سے پتا چلا کہ ضلع میں ہاکی گراونڈ ہی نہیں ہے! پوچھا گیا، “پھر یہ چیمپئن شپ کہاں ہوئی؟” جواب آیا: “پلاننگ کے مرحلے میں تھی، مگر رپورٹ بن گئی تھی۔”
کھیلوں کے نظام کی یہ حالت دیکھ کر اب کھلاڑی بھی سیاستدانوں کی طرح بولنے لگے ہیں۔ ایک نوجوان نے کہا، “ہم بھی سوچ رہے ہیں کہ کھیل چھوڑ کر ڈی ایس او بن جائیں۔ کم محنت، زیادہ ریپوٹیشن۔”دوسرا بولا، “ہاں، اور اگر میٹنگوں میں تصویریں بنوانا کھیل ہے تو ہم بھی چیمپئن بن سکتے ہیں!”
کھیلوں کی وزارت ہر سہ ماہی میں نیا وعدہ کرتی ہے، نئی رپورٹ تیار کرتی ہے، مگر زمینی حقیقت وہی رہتی ہے۔ کھیلوں کے میدانوں میں سنّاٹا ہے، مگر فائلوں میں گہما گہمی۔ افسران کے کمرے ایئر کنڈیشنڈ ہیں،
مگر کھلاڑیوں کے پاس پینے کا صاف پانی بھی نہیں۔ فنڈز کی ریل پیل ہے، مگر کارکردگی کا ریلا کہیں نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اب “الحمد للّٰہ نئی سہ ماہی شروع ہوگئی ہے” سن کر ہنسنے لگتی ہے۔ کیونکہ انہیں پتہ ہے، سہ ماہی نئی ضرور ہے، مگر نظام وہی پرانا — جہاں کھیل کم، کھیل تماشہ زیادہ ہے۔
اگر کبھی واقعی کوئی نیا انقلاب آیا تو شاید اس کا پہلا اعلان یوں ہو: “کھیلوں کی وزارت میں پہلی بار کھیل کھیلا گیا — اصلی والا!”



