مضامین

ڈی جی سپورٹس کی وائرل آڈیو اور نیشنل گیمز کے کردار ‘ گوگل میپ نے ٹرافی جیت لی

ڈی جی سپورٹس کی وائرل آڈیو اور نیشنل گیمز کے کردار ‘ گوگل میپ نے ٹرافی جیت لی

مسرت اللہ جان

کھیلوں کا میدان کبھی جوش کا نام تھا۔ شور، تالیاں، سیٹیاں، پوسٹر، نعرے، اور کچھ کٹی پھٹی بینرز۔ لیکن آج کے دور میں کھیل کا سب سے اہم کردار بن چکا ہے گوگل میپ۔ کیونکہ جو بندہ صحیح وقت پر صحیح وینیو تک پہنچ گیا سمجھیں اس نے میچ کھیل لیا۔ باقیوں کا حال ایسا ہے کہ میچ بھی گیا، موڈ بھی گیا، اور کرایہ بھی گیا۔

ڈی جی سپورٹس خیبرپختونخوا کی وائرل آڈیو کا منظر ایک دلچسپ کالم سے کم نہیں۔ پہلی کال میں جناب کا دکھ سچا تھا اور جملے بھی برجستہ۔ کہتے ہیں یہ پشاور نہیں کہ سیدھا صدر کا رخ کریں اور اگر دل باغوں کی سیر کا ہو تو یونیورسٹی روڈ کی ٹھنڈی ہوائیں محسوس کر لیں۔

یہ کراچی ہے جہاں آپ روانہ سمال انڈسٹریل ایریا کے لیے نکلیں اور پہنچ جائیں کورنگی انڈسٹریل ایریا۔ یہ شہر منزل بدلتا نہیں، انسان بدل دیتا ہے۔

ڈی جی صاحب ایک خاموش سچ سامنے رکھ رہے تھے کہ جب مقابلے جگہ جگہ بکھیر دیے جائیں، ٹرانسپورٹ کا پلان کمزور ہو اور کھلاڑیوں کو خدا کے سہارے چھوڑ دیا جائے تو سوال پوچھنا برا نہیں۔ لیکن سوال پوچھا کس سے جائے، کیونکہ یہاں ہر ایک کے پاس صرف ایک جواب ہے۔ ہمیں علم نہیں، ہم دیکھتے ہیں، یا یہ ہمارا کام نہیں۔ جیسے کھیل نہیں چل رہے بلکہ بیوروکریسی کے فیفا قوانین نافذ ہیں۔

دوسری آڈیو پشتو زبان میں، اور اس میں صورتحال مزید رنگین۔ ڈی جی صاحب تائیکوانڈو دیکھ کر آ رہے ہیں اور باقی کھیلوں کی لوکیشن کا انتظار ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ نیشنل گیمز نہیں اسپورٹس ٹریڑر ہنٹ ہو رہا ہے۔

کون کس کھیل تک کب پہنچتا ہے، کب ہانپتا ہے، کب اوبر بک ہوتی ہے اور کب رکشے والا دل بڑا کر کے مان بھی جاتا ہے۔ شاندار منصوبہ بندی کا ثبوت یہ ہے کہ کھلاڑی بھی حیران، آفیشل بھی پریشان اور رکشہ ڈرائیور خوش۔ کیوں کہ کرایہ کراچی میں فیصلوں کی طرح بے لگام ہے۔

کھلاڑیوں کا کہنا ہے ہمیں صرف آوازیں سنائی دیتی ہیں چہرے نظر نہیں آتے۔ یہ سطر کسی شاعر کے کلام میں ہوتی تو داد ملتی، لیکن یہاں حالات کے کلام میں لکھی جا رہی ہے۔ کیونکہ میٹنگز واٹس ایپ پر، آرڈر وائس نوٹ میں اور تسلی ٹائپ پیغامات میں۔ کسی کھلاڑی نے بجا کہا کہ یہ نیشنل گیمز نہیں "ریموٹ گیمز” ہیں۔ فیلڈ میں پسینہ کھلاڑی بہا رہے ہیں، فیصلے ڈیٹا پیکجز میں بہہ رہے ہیں۔

کراچی میں خیبرپختونخوا کے کھلاڑیوں کو ملنے والی سہولیات کی جو تصویر کھینچی گئی، اسے بادلوں کی تصویر کہا جا سکتا ہے۔ دیکھنے میں خوبصورت، حقیقت میں کچھ نہیں۔ ایک گاڑی پورے دستے کی ذمہ دار، جنونی رفتار سے نہیں بلکہ افسری اصولوں سے چلتی ہے۔

کچھ کھلاڑی رکشے میں، کچھ ٹیکسی میں، کچھ سڑک کنارے بیٹھے ہوئے۔ اور ڈیلی الاو¿نس اس رفتار سے خرچ ہو رہا جیسے کراچی کا پٹرول ہو، حلکے سے دباو¿ اور خالی۔

یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ جتنا وقت کھلاڑی مقابلوں کے لیے پریکٹس میں نہیں گزارتے، اس سے زیادہ وقت وہ وینیوز ڈھونڈنے میں لگا رہے ہیں۔ کسی کو بولنگ سینٹر کا پتہ نہیں، کسی کو ہاکی کا میدان نہیں ملا اور جو اسکوائش کمپلیکس پہنچ گئے وہ انتظار کی کلاس میں داخل ہو گئے۔

صرف دو کوٹس، لمبی قطاریں اور بے ترتیب شیڈول۔ کوئی جاکر پوچھے کہ جب نیوی اسکوائش کلب موجود تھا تو مقابلے چھوٹے وینیو تک محدود کیوں۔ جواب شاید اسی لوکیشن کی طرح چھپا ہوا ہے۔

بات یہ نہیں کہ مسئلہ پہلی بار بنا۔ بات یہ ہے کہ پہلی بار آوازیں ریکارڈ بھی ہو گئیں اور وائرل بھی۔ وائرل ہونا اب کسی کام کے خراب یا اچھے ہونے کا معیار بن چکا ہے۔ یہ آڈیوز سچ سامنے لے آئیں۔

وہ سچ جو ہمیشہ کی طرح وضاحتوں کے نیچے چھپ جاتا ہے۔ جو فائل کی پشت پر چھپ جاتا ہے اور جو کمروں کے ٹھنڈے اے سی کے پیچھے کہیں جمود کا شکار پڑا رہتا ہے۔

کھیلوں کی تباہی کی کہانی میں ایک مستقل کردار ہے۔ ذمہ داری کا تعین نہ ہونا۔ نہ کھلاڑی جانتے ہیں کہ ذمہ دار کون ہے، نہ آفیشلز بتاتے ہیں کہ قصوروار کون۔ درمیان میں میڈیا سوال کرتا ہے،

سوشل میڈیا طوفان اٹھاتا ہے اور پھر اگلا ایونٹ آتا ہے۔ سب بھول جاتے ہیں۔ مسئلے پرانا مگر طریقے نئے۔ آڈیو میسجز، واٹس ایپ چیٹ، سوشل میڈیا پر ٹرینڈ۔ مگر حل وہی پرانا، غیر موجود۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم نے کھیلوں میں ترقی کی ہے۔ ہم جدید ہیں، ہم ڈیجیٹل ہیں، ہم شفافیت کے سفیر ہیں۔ لیکن جب کھلاڑی میچ کے بجائے لوکیشن ڈھونڈتے پھریں، جب آفیشلز خود سہولتوں کے محتاج ہوں، جب گاڑی نایاب ہو، جب رہائش مسئلہ بن جائے اور جب کھیل انتظار کی سزا بن جائے تو کون سی ترقی۔

دنیا میں اسپورٹس سائنس، اسٹریٹیجی اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ ہمارے یہاں میچ سے پہلے کھلاڑی رکشہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ دنیا ڈرون ٹریکنگ سے ڈیٹا جمع کرتی ہے، ہم واٹس ایپ لوکیشن بھیج کر امید کرتے ہیں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ فرق صرف مقابلہ نہیں، سوچ کا ہے۔

کھلاڑیوں سے پوچھیں تو ان کا دکھ یہ نہیں کہ ہار گئے۔ دکھ یہ ہے کہ وہ تیاری کے بغیر میدان میں کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ ذہنی تھکن، جسمانی افراتفری اور انتظامی بیگانگی۔ یہ سب کارکردگی کے دشمن ہیں۔ ہم کھلاڑیوں سے جیت کی امید رکھتے ہیں مگر وہ ہماری انتظامیہ سے بچ کر آئیں تو یہی کامیابی کافی ہے۔

آخر میں سوال وہی پ±رانا ہے۔ اگر یہ نیشنل گیمز ہیں تو پھر مقامی میلے کیسے ہوتے ہوں گے۔ اگر یہ انتظامیہ ہے تو پھر بدانتظامی کس بلا کا نام ہے۔ اگر یہ سہولتیں ہیں تو تکلیف کیا ہوتی ہے۔ پالیسی اگر یہ ہے تو بے نیازی کیا کہلاتی ہے۔

اصلاح کی ضرورت ہے، شکایت کی نہیں۔ کام کی ضرورت ہے بہانے کی نہیں۔ کھیل سنجیدگی کا معاملہ تھا اور ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کھیل کو خبر نہیں سمجھا جائے، اور خبر کو کھیل نہیں بنایا جائے۔

بصورت دیگر ہر سال ایک نئی آڈیو وائرل ہوگی اور نئی وضاحتیں لکھی جائیں گی۔ باقی رہے کھلاڑی تو وہ رکشے میں بیٹھ کر مقابلوں تک پہنچنے کی عادت ڈال چکے ہیں۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!