لندن (سپورٹس لنک رپورٹ)انگلینڈ میں ناٹنگھم شہر کے کمیونٹی سینٹر اور باکسنگ سکول میں اپنے شاگردوں کی کوچنگ کرتی ہوئی زہرا بٹ اپنے حجاب کی وجہ سے کافی منفرد دکھائی دیتی ہیں۔زہرا بٹ پاکستانی نژاد برطانوی خاتون ہیں۔ وہ برطانوی امیچر باکسنگ ایسوسی ایشن کی لیول ون باکسنگ کوچ ہیں۔’میں بیٹی کی پیدائش کے بعد اپنا وزن کم کرنے کے لیے جمنازیم گئی تھی لیکن پھر ورزش کے لیے کی جانے والی یہ باکسنگ میری زندگی کا حصہ بن گئی۔ میں چاہتی تھی کہ ناٹنگھم کے کمیونٹی سینٹر میں خواتین کے لیے باکسنگ کلاسز ہوں لیکن وہاں کوئی خاتون کوچ موجود نہیں تھی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مجھ سے ہی کہا گیا کہ میں برطانوی امیچر باکسنگ ایسوسی ایشن کا لیول ون کورس کروں جو میں نے کیا اور اب میں دوسروں کو باکسنگ سیکھا رہی ہوں۔زہرا بٹ کے لیے باکسنگ کوچ بننے کا یہ سفر ہرگز آسان نہیں رہا کیونکہ انھیں لوگوں کی طرح طرح کی باتیں بھی سننی پڑی تھیں۔’عام طور پر ہماری خواتین اور بچیوں کے بارے میں فیصلے فیملی کے بڑے بزرگ کرتے ہیں۔ میری زندگی کے بھی تمام فیصلے میری فیملی نے مل جل کر کیے لیکن باکسنگ کو اپنانے کا فیصلہ میں نے خود کیا تھا۔ لوگوں نے میرے گھر والوں کو کہا کہ یہ کیا کر رہی ہے۔ آپ نے اسے باکسنگ کی اجازت کیوں دی ہے؟ یہ اچھی بھلی درس و تدریس کے معزز شعبے میں تھی۔انھوں نے کہا کہ ’ان باتوں سے میری والدہ بہت پریشان ہوتی تھیں۔ انھیں میرا فیس بک پر تصاویر پوسٹ کرنا بھی پسند نہ تھا اور وہ ناراض ہو کر کہتی تھیں کہ سب کو کیوں بتاتی ہو کہ تم باکسنگ کوچ ہو۔ میں انھیں کہتی تھی کہ اگر لوگوں کو یہ پسند نہیں تو یہ ان کا مسئلہ ہے میرا نہیں۔ میں جو کچھ کررہی ہوں وہ کرتی رہوں گی۔زہرا بٹ اپنے حجاب کو خوش قسمتی اور انفرادیت کی علامت سمجھتی ہیں۔’میں نے پندرہ سال پہلے یہ حجاب اپنی مرضی سے پہنا تھا اور یہ میری طاقت اور ہمت ہے۔ میں نے اپنی ٹریننگ کے دوران اسے کبھی نہیں اتارا۔ میرے لیے حجاب خوش قسمت ثابت ہوا ہے اور اب یہ میری پہچان بھی بن چکا ہے کیونکہ اگر میں یہ نہ پہنتی تو کوئی میرے کام میں دلچسپی نہیں لیتا۔ غیرمسلم لڑکیاں اسی کی وجہ سے میری طرف متوجہ ہوتی ہیں۔زہرا بٹ نے اگرچہ رِنگ میں باقاعدہ کوئی باؤٹ نہیں لڑی لیکن وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ جس نے خود باکسنگ نہیں لڑی وہ اچھا کوچ نہیں بن سکتا۔
’آپ کی نظر باہر سے جس طرح دیکھ سکتی ہے وہ چیز آپ رِنگ کے اندر سے نہیں دیکھ سکتے۔ میں نے اگرچہ کوئی فائٹ نہیں لڑی ہے لیکن میں اپنے کوچ اور ساتھیوں کے ساتھ باقاعدگی سے سپارنگ (باکسنگ کی تربیت) کرتی ہوں، میں اپنی ٹریننگ بڑھانا چاہتی ہوں اور خود کو اس لیول تک لانا چاہتی ہوں کہ باؤٹ کر سکوں۔زہرا بٹ کا کہنا ہے کہ ان کی فیملی اب ان کے کام سے بہت خوش ہے۔انھوں نے کہا کہ ’میں نے یہ سفر تنہا شروع کیا تھا لیکن مجھے اپنے ساتھ رہنے والی خواتین کا بہت ساتھ رہا۔ انگریز لوگوں نے میری ہمت بڑھائی اب میری فیملی بھی میری حوصلہ افزائی کر رہی ہے لیکن خاندان میں اب بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو میرے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ میں گھر میں بیٹھ کر پارلر کا کام کیوں نہیں کر رہی ہوں۔ میں انھیں یہی کہتی ہوں کہ اگر ہر عورت گھر میں بیٹھ کر پارلر کا کام کرتی تو یہ کام کون کرتا جو میں کررہی ہوں۔‘