تحریر: آغا محمد اجمل
آسمان پر لاکھوں ستارے موجود ہیں۔ہمیں دوربین کے بغیر بھی ہزاروں نظر آتے ہیں۔ چاند کی ہلکی روشنی میں بھی سینکروژوں نظر آتے ہیں۔ کچھ قریب کچھ زیادہ فاصلے پر موجود ہوتے ہیں۔ آسمان پر کہیں کہیں بدلی کی طرح روشنی سی نظر آتی ہے۔ اصل میں وہ بدلی کا ٹکڑا نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں کہکشاووں کا جھرمٹ ہے لیکن بہت دور ہونے کے سبب تمام مل کر بدلی کی سفیدی کی طرح نظر آتے ہیں۔ اس کی بڑی مثال کہکشاں ہے۔ انہیں ستاروں میں شمالی قطبی ستارہ ایسا ستارہ ہےجو کہ سارا سال رات بھر گویا ایک ہی جگہ پر نظر آتا ہے۔رات کے وقت کوئی مسافر صحرا میں بھٹک جائےیا کوئی نیند سے بیدار ہوکر سفر شروع کردے تو وہ شمالی قطبی ستارے کو دیکھ کر سمت کا تعین کرسکتا ہے۔ اس کے بعد دیگر سمتوں کا تعین آسان ہوجاتا ہے۔ایسا ہی ایک چمکتا ستارہ میاں عباس ہے جو پاکستانی فٹ بال کے افق پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہےاورپاکستانی فٹ پر چھائے ہوئے گھپ اندھیرے میں امید کی کرن ہے۔
میرا ایمان ہے کہ ہمارا کام ہی ہماری مقبولیت کا باعث ہوتا ہے۔ جب تک آپ اچھا کام کریں گے لوگ آپ کو پسند کریں گے اور آپ کی ساکھ قائم رہے گی۔ یہ بات میاں عباس پر صادق آتی ہے۔ بہت سے آرگنائزرزفٹ بال سیکٹر کو صرف کمانے کی جگہ سمجھتے ہیں اس کھیل کی بہبود کے لیے کچھ نہیں کرتے مگر میاں عباس ایسے نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے رئیل اسٹیٹ بزنس سے جو بھی کمایا ہےاس کی خطیر رقم کو فٹ بال کی فلاح و بہبودکے لیے وقف کر رکھی ہے۔ میاں عباس عام زندگی میں بھی خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں۔ مہمان نوازی ہمیشہ سے ان کا طرح امتیاز رہا ہے۔قدرت ہمیشہ خلوص سے معطر لگن و جذبے کی قدر ہوئے آپ کو راج سنگھاسن پربراجمان کرکے دوسرے کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔