صوابی میں خدمات انجام دینے والے ٹیبل ٹینس کوچ شہزاد اسلام 12ماہ کی تنخواہ سے محروم کیوں۔۔۔؟
رپورٹ: غنی الرحمن
خیبر پختونخوامیں ٹیبل ٹینس کی ترقی میں کلیدی رول اداکرنیوالے کوچ شہزاد اسلام آجکل محکمہ کھیل کے حکام کی ستم ظریفی سے سخت مشکلات سے دو چار ہیں ،
پشاور کے تاریخی اسلامیہ کالج یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے والے شہزاد اسلام کو شعبہ کھیل بلکہ ٹیبل ٹینس سے اتنا لگاﺅ ہے کہ انہوںنے دیگر کئی محکموں میں نوکریوں کے آفرز کو ٹکراکرمحکمہ کھیل میں کوچنگ کی نوکری کو ترجیح دی،
انہوں نے اس امید پر اپنی ساری زندگی ٹیبل ٹینس کے فروغ ،ضلع صوابی بلکہ پورے مردان ریجن کے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو سامنے لانے میں گزاردی ہیں۔
شہزاد اسلام جو والدین کا اکلوتا بیٹاہے ،دوسری والدین کی طرح انکے والدین کی بھی دلی خواہش ہے کہ انکے بیٹے کوکہیں پر نوکری مل جائے تو مشکلات ختم ہوکر آسانی آجائے گی،
کیونکہ انکے والدمحترم کئی سال سے گھر میں بیمار پڑاہے ،اس بیٹے کے علاوہ کوئی کمائی والانہیں ،وہ ایک بہترین کوچ کے ساتھ ساتھ خوش آخلاق اور نرم دل انسان بھی ہیں،
محکمہ کھیل میں مستقل بنیادوںپرکوچنگ کی نوکری کی امید پر وہ کئی سال سے بحیثیت ڈیلی ویجزملازم بام خیل سپورٹس کمپلیکس صوابی میں ٹیبل ٹینس کوچنگ کررہے ہیں ۔
شہزاد اسلام نے کئی مرتبہ پاکستان ٹیبل ٹینس فیڈریشن اور خیبر پختونخواٹیبل ٹینس ایسوسی ایشن کی نگرانی کوچنگ کورسز کرائے ہیں،
ٹیبل ٹینس فیڈریشن اور صوبائی ایسوسی ایشن میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے ،وہ ایک کوالیفائڈ کوچ ہیں ،اس کے علاوہ ٹیبل ٹینس کے ایک منجھے ہوئے کھلاڑی بھی رہے ہیں،
جنہوںںنے صوبے اور پاکستان کے لیول پر ریجن اور صوبے کی نمائندگی کی ہے ۔ شہزاداسلام وہ شخصیت ہیں جنہوںنے مردان ریجن بلکہ خیبر پختونخواکے تمام مرد وخواتین کھلاڑیوں کی جس قدر حوصلہ آفزائی وسرپرستی کرتے چلے آرہے ہیں
،یہ انداز اور طریقہ کسی بھی کھیل کے کوچ سے یکسر مختلف ہے ،ڈسٹرکٹ صوابی سے لیکر مردان ریجن،پشاور اور خیبر پختونخوابلکہ پاکستان کی سطح ٹیبل ٹینس فیڈریشن کے عہدیدار،
کوچز،آفیشلزاور کھلاڑی انہیں عزت واحترام سے ،جی لالہ ،،کہہ پر پکارتے ہیں ،کیونکہ وہ ایک انتہائی سیدھا سادہ اور صاف گوہ انسان ہیں ،اور ہر کسی کو عزت دیتاہے ،اور بدلے میں انہیں جس قدر احترام کے ساتھ ایک منفرد مقام ملاہے وہ ہر کسی کونصیب ہوتا۔
ضلع صوابی کے گاﺅں زروبی سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کو چ شہزاد اسلام کوان خدمات کے بدلے محکمہ کھیل کے حکام نے کبھی بھی انکی حوصلہ آفزائی نہیں کی ،اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ انکی پورے سال سے تنخواہ نہیں دی گئی ،
لیکن وہ کھلاڑیوں کو کوچنگ کررہے ہیں،وہ اس امید پر کہ اس ماہ تنخواہ ملے گی ،اور اس ماہ تنخواہ ملے گی۔لیکن افسوس کہ ایک سال گزرنے کے باوجوداس خوددار اور محنتی کوچ کو تنخواہوں سے محروم رکھاگیا،
لیکن محکمہ کھیل کے اعلیٰ حکام یہ نہیں سوچتے کہ یہ لوگ کیا کریں گے ،کیا کھائیںگے ۔پشاور سپورٹس کمپلیکس میں واقع سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخوکے یخ بستہ دفاترز میں بیٹھے اعلیٰ آفسران یہ سوچتے بھی نہیں کہ گرمی ،
سردی اور بارش میں کھلاڑیوں کی کوچنگ کرنے والے کوچ اور مختلف مقامات پر خدمات دینے والے ڈیلی ویجزملازمین کو تنخواہ جو ان کا بنیادی حق ہے وہ مل رہاہے کہ نہیں ۔۔۔؟ بلکہ وہ تو اپنی تنخواہ کے علاوہ بڑی بڑی گاڑیاں ،کشادہ مراعات اور اپنی سکیل کی ترقی کی کوششوں میں لگے ہوتے ہیں ۔
محکمہ کھیل صرف اور صرف ان کوچز ،کلاس فور اور ڈیلی ویجزملازمین کی محنت اورکام سے چل رہاہے ،اسکے کھیلوں کے فروغ اور کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں ان افسران کو کوئی رول نہیں ،
اور یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ محکمہ بیساکیوں پر چل رہاہے،ان کو توجہ دینی چاہئے ۔لہذاضرورت اس آمر کی ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواسردار علی آمین گنڈاپورکو محکمہ کھیل کی طرف خصوصی توجہ دے کہ آیا
اس محکمے کی کوئی کارکردگی ہے کہ انہیں ،علی آمین گنڈاپورایک وقت میں خود بھی رہے ہیں سکواش کے باصلاحیت کھلاڑی تھے ،
کیونکہ انہیں کسی کوچ نے سکواش کی تربیت دی تھی وہ کھلاڑیوں کے مسائل اچھی طرح جانتے ہیں اور ساتھ ہی کھیل اور کھلاڑیوں کی ترقی میں کوچز کے کردار سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔