وسائل کی فراوانی اورکھلاڑیوں کےناقص پرفارمنس، وجوہات کی تلاش
غنی الرحمن
خیبرپختونخوا کی تاریخ کھیلوں کے میدان میں ہمیشہ منفرد اور جراتمند رہی ہے، جہاں کھلاڑیوں نے شدید مشکلات کے باوجود اپنی ہمت اور محنت سے کامیابیاں حاصل کیں۔
ماضی کے دور میں کھیلوں کے وسائل کی شدید کمی تھی اور کھلاڑیوں کو اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے حکومتی مدد میسر نہیں تھی۔ اس وقت پشاور اور خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں کے کھلاڑیوں نے شدید مشکلات کے باوجود عالمی اور قومی سطح پر اپنی شناخت بنائی۔ ان کھلاڑیوں نے خالی میدانوں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر اپنی مہارت کو پروان چڑھایا اور ناممکن کو ممکن بنایا۔
تاہم اب وقت بدل چکا ہے حکومت کی جانب سے کھیلوں کی ترقی کے لیے جدید سہولیات اور وسائل کی فراوانی ہے، اور کھیل کے میدان، اکیڈمیاں اور تربیتی مراکز قائم کیے جا چکے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود خیبرپختونخوا کے کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر وہ کامیابیاں حاصل نہیں کر پا رہے جو ماضی میں کم وسائل کے باوجود ممکن تھیں۔
یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کمی کھلاڑیوں کی صلاحیتوں میں ہے یا حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی کا نتیجہ؟ حقیقت یہ ہے کہ کھلاڑیوں میں آج بھی وہی جوش و جذبہ موجود ہے، لیکن انہیں رہنمائی اور موثر تربیت کی ضرورت ہے۔
حکومتی ادارے جدید وسائل فراہم کرنے کے باوجود کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو صحیح طریقے سے اجاگر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تربیت کے فقدان اور مناسب نگرانی کے بغیر کھلاڑیوں کا مستقبل غیر یقینی رہتا ہے۔
حکومت کو نہ صرف جدید سہولیات فراہم کرنی چاہیے بلکہ کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے مستند کوچنگ اور تربیتی پروگرامز کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔
خیبرپختونخوا کے کھلاڑیوں میں آج بھی وہی عزم اور محنت کی صلاحیت موجود ہے، جو ماضی میں تھی۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان کی محنت کو صحیح سمت دی جائے، تاکہ یہ کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں اور خیبرپختونخوا کو ایک مرتبہ پھر کھیلوں کے میدان میں عالمی سطح پر نمایاں کر سکیں۔۔
ایک اہم مسئلہ صوبائی محکمہ کھیل کا وہ غیر مناسب رویہ بھی ہے، جس نے کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے کو متاثر کیا ہے۔ کوچزجو کہ کھلاڑیوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، انہیں دفاتر میں انتظامی ذمہ داریوں میں مصروف کر دیا گیا ہے۔
محکمہ کھیل میں جن کوچز کو کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے تعینات کیا گیا تھا، انہیں ان کے اصل کام سے ہٹا کر سٹیڈیموں کے ایڈمنسٹریٹر یا دیگر دفاتر میں غیر متعلقہ ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ ان عہدوں پر ان کا کوئی تجربہ نہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف کھلاڑیوں کی تربیت متاثر ہو رہی ہے بلکہ کوچز کی صلاحیتیں بھی ضائع ہو رہی ہیں۔
ان کے تبادلوں کی پالیسی بھی اس صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے، جب ایک کوچ اپنی مہارت کے بجائے غیر متعلقہ انتظامی کاموں میں لگ جائے تو کھلاڑیوں کو مناسب تربیت نہیں مل پاتی اور ان کی صلاحیتیں زنگ آلود ہو جاتی ہیں۔
یہاں یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ کھیلوں کی ترقی صرف سہولیات کی فراہمی سے ممکن نہیں۔ تربیت یافتہ کوچز کی رہنمائی اور تسلسل کے ساتھ ان کی خدمات کا استعمال ضروری ہے۔ جس طرح ایک کلرک کو تکنیکی کام نہیں دیا جا سکتا، اسی طرح ایک کوچ کو بھی انتظامی ذمہ داریوں میں مصروف کر دینا مناسب نہیں۔
حکومت کو کوچز کے تبادلوں کی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور انہیں ان کی اصل ذمہ داریوں پر واپس لانا چاہیے۔ تربیت یافتہ کوچز کی موجودگی کھلاڑیوں کے لیے نہایت ضروری ہے تاکہ وہ اپنی مہارتوں کو بہتر بنا سکیں اور بین الاقوامی مقابلوں میں ملک کا نام روشن کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ محکمہ کھیل کو اپنے نظام میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے تاکہ کوچز اور کھلاڑیوں دونوں کی محنت ضائع نہ ہو اور خیبرپختونخوا کی سرزمین سے مزید کامیاب کھلاڑی ابھر سکیں۔
حکومت کو مزید فعال اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ کھیلوں کا مستقبل بہتر ہو سکے۔ تبھی خیبرپختونخوا کے کھلاڑی ایک مرتبہ پھر قومی اور بین الاقوامی میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں گے۔