کرکٹ کا جنون، نوجوان نسل کی زندگی، تعلیم اور قومی کھیلوں کا نقصان
غنی الرحمن
کرکٹ کا شوق پاکستان میں کسی بخار سے کم نہیں رہا، خاص طور پر نوجوان نسل اس کھیل کے دیوانے ہو چکے ہیں۔ اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے یہ نوجوان کرکٹ کے میدان میں دن رات ایک کر دیتے ہیں،
اور والدین اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر اپنی کمائی پانی کی طرح بہا دیتے ہیں۔ تاہم اس شوق نے جہاں کرکٹ کو ملک کا سب سے مقبول کھیل بنایا ہے، وہیں کئی سنگین مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔
کرکٹ میں انٹرنیشنل لیول تک پہنچنے کی خواہش نے نوجوانوں کو ایک عجیب خواب میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ نوجوان سمجھتے ہیں کہ قومی ٹیم کا حصہ بننے سے ان کی زندگی بدل جائے گی، اور انہیں ڈالرز، لگژری گاڑیاں، بنگلے، اور بینک بیلنس میسر ہوگا۔ والدین بھی اپنے بچوں کے خوابوں کی تکمیل کے لیے بھاری سرمایہ لگاتے ہیں، کرکٹ کلبز کی ماہانہ فیس، گراؤنڈ میچ فیس اور کٹس خریدنے میں بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔
کرکٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے مختلف علاقوں میں گراؤنڈز اور اکیڈمیاں قائم کرنے کے رجحان کو بڑھاوا دیا ہے۔ پشاور کے چارسدہ روڈ، پھندو روڈ، اور دیگر علاقوں میں بے شمار کرکٹ اکیڈمیاں بن گئی ہیں۔ ان میں سے اکثر اکیڈمیوں میں تربیت کے لیے کوالیفائڈ کوچز موجود نہیں ہوتے، اور محض پیسہ کمانے کے لیے نوجوانوں کو غیر معیاری تربیت دی جاتی ہے۔
کرکٹ کے جنون نے نوجوانوں کی تعلیم کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بہت سے لڑکے اپنی تعلیم کو چھوڑ کر کرکٹ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، لیکن جب وہ کرکٹ میں بھی کامیاب نہیں ہو پاتے، تو ان کا مستقبل بے سمت ہو جاتا ہے۔ نہ تو وہ کرکٹ میں ترقی کر پاتے ہیں اور نہ ہی کسی اور شعبے میں خود کو ثابت کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ کرکٹ کی مقبولیت نے دیگر قومی کھیلوں جیسے ہاکی، فٹبال اور والی بال سمیت دیگرکھیلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ حکومتی اور عوامی توجہ کرکٹ پر مرکوز ہونے کی وجہ سے دیگر کھیلوں کو وہ وسائل اور پذیرائی نہیں ملتی، جس کے وہ حق دار ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ کرکٹ اکیڈمیوں کی رجسٹریشن اور ان میں کوالیفائڈ کوچز کی تعیناتی کو یقینی بنائے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کو اولین ترجیح دیں اور انہیں کرکٹ کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی دلچسپی لینے کی ترغیب دیں۔
حکومت اور کھیلوں کے منتظمین کو ہاکی، فٹبال اور دیگر کھیلوں کی ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قومی کھیلوں کو بحال کیا جا سکے۔
کرکٹ کا شوق اپنی جگہ، لیکن اگر یہ شوق نوجوانوں کی زندگی، تعلیم اور دیگر کھیلوں کو نقصان پہنچا رہا ہے، تو اس کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ والدین، حکومتی ادارے اور کھیلوں کی تنظیمیں مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں، تاکہ نوجوانوں کا مستقبل محفوظ ہو سکے اور تمام کھیل یکساں ترقی کر سکیں۔