سابق اولمپیئن محمد عاشق خالق حقیقی سے جاملے! وہ اولمپیئن سائیکلسٹ جو اپنے آخری دنوں میں زندگی کی گاڑی کا پہیہ چلانے کے لیے رکشہ چلانے پر مجبور تھا۔
وہ جو اپنے جیتے گئے میڈلز اپنے رکشے میں لٹکائے لاہور کی سڑکوں پر مسافروں کو ان کی منزلوں پر پہنچاتا تھا، اب خود اپنوں کی جانب سے ناقدری کا شکوہ لیے حقیقی منزل پر پہنچ گیا۔
83 سالہ محمد عاشق اس ماہ کی 11 تاریخ کو لاہور کے ایک اسپتال میں اپنی سالگرہ سے محض 6 روز قبل نہایت خاموشی سے ابدی نیند سوگئے۔
اپنے آخری وقت میں شاید محمد عاشق نے اپنے میڈلز کی جانب بھی دیکھا ہوگا، انہوں نے اُن لمحات کو بھی یاد کیا ہوگا جب عالمی ایونٹس میں کوئی مقابلہ جیت کر انہوں نے وطن عزیز کا نام روشن کیا تھا۔
انہیں وہ وقت بھی یاد آیا ہوگا جب اپنے عروج کے دور میں انہوں نے ملک کے سربراہان سے ہاتھ ملایا ہوگا اور ان سے داد وصول کی ہوگی۔
انتقال سے کوئی 2 سال قبل اگست 2016 میں ایک انٹرویو میں عاشق نے بتایا تھا کہ وہ کئی صدور اور وزراء سے ملاقاتیں کرچکے ہیں، بقول عاشق ‘وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں مر چکا ہوں۔ لوگ مجھے کیسے بھلا سکتے ہیں، مجھے یقین نہیں آتا’۔
اور اب وہ واقعی مر چکا ہے!
کسی نے سچ ہی کہا تھا،
زندہ رہیں تو بات کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے
مرجائیں تو کندھوں پہ اٹھا لیتے ہیں لوگ
اپنے آخری وقت میں اس ضعیف شخص کو زندگی کا بوجھ اٹھانے کے لیے جو مشقتیں اٹھانا پڑی ہوں گی، ان تمام مشقتوں کا باب بھی اب بند ہوگیا۔
محمد عاشق کو کھیلوں کا شوق تھا اور انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز باکسنگ سے کیا تھا، لیکن اس مار دھاڑ والے کھیل سے لگنے والی چوٹیں عاشق کی اہلیہ سے دیکھی نہیں جاتی تھیں، لہذا انہوں نے عاشق کو اس کھیل سے منع کردیا اور پھر انہوں نے باکسنگ ترک کرکے سائیکلنگ شروع کردی۔
پاکستان ریلوے میں ملازمت کے دوران انہوں نے 1960 میں روم اور 1964 میں ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس کے سائیکلنگ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی، لیکن کوئی میڈل نہیں جیت پائے تھے، ہاں لیکن 1958 اور 1962 کے ایشین گیمز میں انہوں نے چاندی اور کانسی کا تمغہ ضرور جیتا تھا۔
اور پھر عاشق کی ریلوے کی ملازمت کے اختتام کے ساتھ ان کا سائیکلنگ کا کیریئر بھی ختم ہوگیا اور مستقل ملازم نہ ہونے کی بناء پر وہ پینشن کے حقدار بھی نہ ٹھہرے۔
گزر بسر کے لیے عاشق نے ایک جگہ ملازمت کی لیکن بیماری کے باعث یہ ملازمت بھی چھوٹ گئی اور وہ زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لیے سڑکوں کی خاک چھاننے لگے، انہوں نے کچھ چھوٹے موٹے کاروبار بھی کرنے چاہے، ٹیکسی بھی چلائی لیکن کامیابی نہ ملی اور پھر انہوں نے رکشہ چلانا شروع کردیا۔
عاشق کے 4 بچے تھے، لیکن وہ کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے تھے، ہاں لیکن وہ اپنے رکشہ میں بیٹھنے والے مسافروں کو یہ نصیحت ضرور کرتے تھے کہ وہ کبھی کھیلوں میں حصہ نہ لیں۔
ان کے رکشے پر درج تھا، ‘وہ قومیں جو اپنے ہیرو کو فراموش کردیتی ہیں، کبھی ترقی نہیں کر پاتیں’۔
شاید وہ یہ گانا بھی ضرور گنگناتے ہوں گے، ‘لائی بے قدراں نال یاری’۔
واقعی ہم ایک ناقدری قوم ہیں، ہم اپنے ہیروز کو وہ عزت و احترام نہیں دیتے، جو انہیں ملنا چاہیے، ہم کسی کی خوبصورتی یا محض اداؤں کی بناء پر تو کسی کو بھی ساتویں آسمان پر پہنچا دیتے ہیں لیکن وطن عزیز کا نام روشن کرنے والے ‘اصل ہیروز’ اسی طرح ناقدری کا شکوہ کرتے رہ جاتے ہیں۔
ان سطور کو لکھنے کے دوران ایک اور خبر بھی نظر سے گزری کہ پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ گول کیپر منصور احمد بھی شدید علیل ہیں، جنہیں ڈاکٹروں نے بیرون ملک ہارٹ ٹرانسپلانٹ کا مشورہ دیا ہے۔
یہ وہی منصور احمد ہیں، جنہوں نے 1994 کے ہاکی ورلڈ کپ فائنل میں پنالٹی اسٹروک پر گول روک کر پاکستان کو چوتھی مرتبہ عالمی چیمپیئن بنوایا تھا۔
منصور احمد نے وزیراعظم سے علاج میں مدد کی اپیل بھی کی ہے، خدا کرے کہ ان کی شنوائی ہوجائے اور خدا کرے کہ وہ صحت یاب ہوجائیں تاکہ پھر کسی کھلاڑی، کسی اولمپیئن کو یہ نصیحت نہ کرنا پڑے کہ کبھی کھیلوں کے شعبے کو مت اپنانا۔