بال ٹیمپرنگ کا معاملہ گذشتہ چند دن سے کرکٹ کی دنیا میں ایک مرتبہ پھر زیرِ بحث ہے لیکن دراصل یہ ہے کیا؟جنوبی افریقہ کے خلاف تیسرے کرکٹ ٹیسٹ میچ کے دوران آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے کپتان سٹیو سمتھ نے اعتراف کیا کہ انھوں نے گیند سے چھیڑ چھاڑ کا منصوبہ بنایا تھا۔گیند سے اس چھیڑچھاڑ یا بال ٹیمپرنگ کا فائدہ کیا ہوتا ہے۔ جانیے کرکٹ کے ماہر سائمن ہیوز کی زبانی۔
ریورس سوئنگ کیا ہوتی ہے؟
سوئنگ دو قسم کی ہوتی ہے۔ روایتی سوئنگ جس میں بولر گیند کو ایک طرف سے چمکاتا ہے تاکہ وہ ایک جانب گھومے۔ جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا میں زیادہ تر کوکابرا گیند استعمال کی جاتی ہے جس کی چمک زیادہ دیر برقرار نہیں رہتی اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بولر ریورس سوئنگ کی کوشش کرتے ہیں۔ریورس سوئنگ کے لیے ضروری ہے کہ گیند کو ایک طرف سے جس حد تک ممکن ہو کھردرا اور خشک رکھا جائے۔اس کے نتیجے میں جب بولر گیند پھینکتا ہے تو ہوا کھردری سطح سے رگڑ کھاتی ہے اور گیند اپنی عمومی سوئنگ کے راستے سے ہٹ کر دوسری جانب گھوم جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے ریورس سوئنگ کہا جاتا ہے۔
جب گیند ریورس سوئنگ ہو تو کیا ہوتا ہے؟
پاکستانی فاسٹ بولر عمران خان وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے مجھے نیٹ پریکٹس کے دوران ریورس سوئنگ کر کے دکھائی اور دکھایا کہ گیند سے چھیڑچھاڑ کیسے کی جاتی ہے۔
انھوں نے کٹ بیگ سے ایک پرانی گیند لی، کھردری جانب پر کوارٹر سیم کو ابھارا اور گیند ایک بومیرنگ کی مانند گھومی۔کبھی کبھار میچوں میں جب کچھ کام نہیں کر رہا ہوتا تھا تو میں نے یہ حربہ آزمایا جو کہ یقیناً کھیل کے اصولوں کے سو فیصد خلاف تھا لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ شاید میں اس کا ماہر نہیں تھا۔
کیا گیند قدرتی طور پر کھردری ہو سکتی ہے؟
کراس سیم گیندیں یعنی ایسی گیندیں کرنا جن میں ٹپہ سیم کی جگہ چمڑے کا لگے یا گیند کو میدان میں ہوا میں پھینکنے کی بجائے زمین پر پھینکنے سے اس بات کی ضمانت نہیں ملتی کہ گیند ایک جانب سے ہی کھردری ہو گی۔اس لیے بولر اور فیلڈر اس کے لیے غیر قانونی طریقے استعمال کرتے ہیں۔اس کے لیے وہ دانستہ طور پر گیند پر کیلوں والے جوتے رکھنے یا اسے ناخن، بوتل کے ڈھکن یا ریگمال سے کھرچنے جیسی حرکتیں کرتے ہیں۔گیند کی شکل بگاڑنے کا قانونی طریقہ بس یہی ہے کہ آپ اسے ایک برے سپنر کو تھما دیں۔ اسے لگنے والے چھکے جب کنکریٹ سٹینڈز سے ٹکرائیں گے تو یقیناً گیند کو ویسا نقصان پہنچ جائے گا جس کی خواہش فاسٹ بولر کو ہو گی۔
اگر گیند قدرتی طور پر کھردری ہو سکتی ہے تو ٹیمپرنگ کی نشاندہی کیسے ممکن ہے؟
1990 کی دہائی کے اواخر میں جب پرانی گیند سے ریورس سوئنگ نے مقبولیت حاصل کی تو کچھ بولر گیند کی کھردری سطح پر موجود قدرتی نشانات سے زیادہ بہتر انداز سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوئے۔اگر کھلاڑی بال ٹیمپرنگ کرتا ہوا پکڑا نہ جائے تو گیند پر موجود قدرتی اور انسان کے بنائے گئے نشانات میں فرق تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔میں نے اس گیند کا جائزہ لیا تھا جس سے امپائرز کے مطابق 2006 میں اوول کے میدان میں پاکستانی کھلاڑیوں نے چھیڑ چھاڑ کی تھی۔میں نے اس معاملے میں بولرز کا دفاع کیا تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ یقینی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ گیند پر موجود خراشیں قدرتی طور پر نہیں پڑی تھیں اور کسی پاکستانی کھلاڑی کو کیمرے پر گیند سے چھیڑچھاڑ کرتے نہیں پایا گیا تھا۔
کیا آسٹریلیا کی کوششیں کامیاب ہوتیں؟
یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ٹیپ کے ٹکڑے پر جمی مٹی گیند پر رگڑنے سے اس کے رویے پر کتنا فرق پر سکتا تھا۔ یہ خطرہ یقیناً مول لینے کے قابل نہیں تھا اور اب یقیناً آسٹریلوی کھلاڑیوں کو اس کا احساس ہو گیا ہے۔
کیا بال ٹیمپرنگ کر کے بچ نکلنا آسان ہے؟
آج کل کی عالمی کرکٹ میں ایسا ناممکن کے برابر ہے۔ایک میچ کے دوران 30 کیمرے آپ پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور امپائر باقاعدگی سے گیند کا معائنہ کرتے رہتے ہیں۔کرکٹ کا کھیل تنازعات کا شکار رہا ہے لیکن اس کے نام کے ساتھ ہمیشہ یہی چیز وابستہ رہی ہے کہ اس میں لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور بہتر رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔