9سال بعد نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں جب پی ایس ایل کا فائنل کھیلا گیا تو پورا شہر امڈ آیاتھا۔ بچے ، بوڑھے ،نوجوان ، خواتین ، سبھی دیوانہ وار اسٹیڈیم کی طرف گامزن تھے۔ پاکستان سپر لیگ کا جادو سرچڑھ کر بول رہا تھا ، ہر پاکستانی پر اس کا نشہ سوار تھا ، یہاں تک کہ دنیا بھر میں اس کی کامیابی کے چرچے ہو رہے ہیں ۔کامیاب لیگ کے اہتمام پر پی سی بی کی تحسین بھی جاری ہے ، کیونکہ دہشت گردی کے بعد کے حالات میں اس طرح کامیاب کرکٹ میلہ منعقد کرنا بہت دل گردے کا کام تھا ۔پاکستان سپر لیگ کی چکا چوند نے خواتین کرکٹرز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ویمن کرکٹرز نے پی سی بی سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کیلئے بھی لیگ کا اہتمام کیا جائے، لیگ سے ٹیلنٹ کے ساتھ خواتین میں کرکٹ کارجحان بھی بڑھے گا۔آسٹریلیا اور انگلینڈ ویمن کرکٹ میں دونوں ممالک کی خوب حکمرانی ہے جس کی ایک وجہ وہاں ویمن کرکٹ لیگ بھی ہے۔ان لیگز میں غیر ملکی خواتین کرکٹرز تو شامل ہوتی ہیں مگر پاکستانی کرکٹرز کو کبھی دعوت نہیں دی گئی۔ چیمپئنز ٹرافی میں ٹیم پاکستان کی جیت کا کریڈٹ بہت حد تک بورڈ پی ایس ایل کو دیتا ہے اور خواتین کرکٹرز بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ لیگ کے بعد قومی ویمن لیگ کے دن بھی بدل جائیں گے۔پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ مختلف کھیلوں کی صورتحال کچھ حوصلہ افزا نہیں۔ خصوصاً خواتین کے لیے تو اور بھی مشکلات ہیں کیونکہ ان کی ٹیموں کو یا تو سرکاری سرپرستی حاصل نہیں، یا پھر فنڈز نہ ہونے کے باعث یہ بہترین مواقع سے محروم ہیں۔لیکن پاکستان کرکٹ ٹیم کی خواتین تمام تر مشکلات اور ناموزوں حالات کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم آئی سی سی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر موجود ہے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کچھ کھلاڑیوں نے اپنی اس جدوجہد کا احوال بتایا۔ آئیے آپ بھی اس سے محظوظ ہوں۔
ثناء میر
ثناء میر نے وقار یونس کو دیکھ کر فاسٹ بولر بننے کا فیصلہ کیا لیکن کمر کی تکلیف کے باعث تیز بولنگ ترک کرکے وہ اسپنر بن گئیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور یونس خان جیسے ملک کے خیر خواہ کرکٹر پسند تھے جنہوں نے ملک کو عالمی چمپیئن بنوایا۔
ثنا ء کیلئےپاکستان کرکٹ میں ابتدائی پانچ سال مشکل تھے کیونکہ یہاں لوگ خواتین کی کرکٹ پر اعتماد کرنے کو تیار نہ تھے مگر ایشین گیمز میں طلائی تمغہ جیتنے کے بعد ہرایک نے حوصلہ افزائی شروع کردی۔ ثنا کے بقول اب پی سی بی کی طرف سے کھلاڑیوں کو معاہدوں کی پیشکش ہو رہی ہے۔ میچ ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھائے جا رہے ہیں اور لوگ اپنی لڑکیوں کو بخوشی کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ اس پیش رفت کا کریڈٹ ملک میں کرکٹ شروع کرنے والی خواتین کے سر ہے۔
ثنا ءمیر نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ ٹیم میں ہوں نہ ہوں پاکستان ٹیم ایک مرتبہ عالمی چمپیئن بن جائے۔ انہوں نے کہا کہ کھیل کا معیار مزید بلند کرنے کے لیے پاکستانی خواتین ٹیم کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنا ہوگی اور اس سے پہلے پی سی بی کو ملک میں دو روزہ کرکٹ متعارف کرانا چاہیے تاکہ ٹیم کو اچھی بلے بازمل سکیں۔
بسمہ معروف
ثناء میر کے بعد قومی ٹیم کی کپتانی سنبھالنے والی بسمہ معروف کو آئی سی سی کی عالمی رینکنگ میں شامل کیا گیا ہے۔ وہ ٹاپ ٹین آل راؤنڈرز میں جگہ بنانے والی پاکستانی خاتون کھلاڑی ہیں۔بسمہ نے بتایا کہ انہیں اپنا لوہا منوا کر بہت خوشی ہو رہی ہے اور آئندہ اپنے نام کا بھرم رکھنے کے لیے وہ اوربڑی کامیابیاں سمیٹنا چاہتی ہیں جو ٹیم کے کام آئیں۔بسمہ کا کہنا تھا کہ وہ مستقل مزاج کارکردگی کے لیے بھارتی کھلاڑی ویرات کوہلی کے کھیل کی کاپی کرتی ہیں۔
نین عابدی
ویمن کرکٹ ٹیم کی سابق نائب کپتان نین عابدی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ واحد پاکستانی خاتون کرکٹر ہیں جنہوں نے ون ڈے کرکٹ میں سنچری بنائی ہے۔ وہ اسے اپنی زندگی کا نہایت قابل فخر لمحہ قرار دیتی ہیں۔نین عابدی کچھ عرصہ قبل ہی رشتہ ازدواج میں بھی منسلک ہوچکی ہیں، اور شادی کے بعد بھی اپنا کیرئیر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کا سفر آسان نہیں تھا۔ خصوصاً اس وقت جب ویمن کرکٹ کو بالکل نظر انداز کیا جاتا تھا اور کھلاڑیوں کو مالی معاونت بھی حاصل نہیں تھی۔تاہم اب حالات بہتر ہوگئے ہیں، اب پی سی بی کی جانب سے ان کی مکمل سرپرستی کی جارہی ہے، انہیں مالی معاونت بھی حاصل ہوگئی ہے اور ٹیم کو بین الاقوامی طور پر کھیلنے کا موقع بھی دیا جارہا ہے۔نین عابدی کے مطابق جب وہ سبز لباس پہن کر دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں تو اس وقت ان کے تاثرات ناقابل بیان ہوتے ہیں۔
ربیعہ شاہ
ویمن کرکٹ ٹیم کی وکٹ کیپر ربیعہ شاہ نے گلی محلے میں اپنے بھائیوں اور کزنز کے ساتھ کرکٹ کھیل کر اپنی اس صلاحیت کو نکھارا۔وہ بتاتی ہیں کہ اس شعبہ میں جانے کے لیے سب سے زیادہ ان کے ماموں نے ان کی حوصلہ افزائی کی، اور انہوں نے ہی ربیعہ کے والدین کو قائل کیا کہ وہ اسے قومی کرکٹ ٹیم میں بھیجیں۔
ماہم طارق
ماہم طارق کی سوئنگ کرتی بائولنگ کے ہم بھی چشم دید گواہ ہیں۔ ماہم بتاتی ہیں کہ ان کے والد کے علاوہ خاندان کے کسی شخص نے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ ان کے لیے خود کو منوانے کا سفر آسان نہیں تھا۔ماہم طارق کا کہنا ہے کہ وہ سب بھی عام سے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور آج اگر وہ اس مقام پر موجود ہیں تو اس کے پیچھے صرف ان کی انتھک محنت اور جدوجہد ہے۔ اسی جدوجہد سے وہ اپنی شناخت منوانے میں کامیاب ہوئیں۔
تمام خواتین کا متفقہ طور پر ماننا ہے کہ جب انہوں نے کرکٹ ٹیم میں جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں مشکلات اور مخالفتیں تو سہنی پڑیں، لیکن ایک بار جب انہوں نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے کامیابیاں حاصل کرنا شروع کردیں، اور خود کو منوا لیا تو اس کے بعد سب نے ان کی صلاحیتوں کو تسلیم کرلیا۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے ان روشن ستاروں کا تمام لڑکیوں کے لیے پیغام ہے کہ حوصلہ، لگن اور محنت کسی کو اس کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے سے نہیں روک سکتا۔