اسلام آباد(سپورٹس لنک رپورٹ)وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ فہمیدہ مرزا نے کہا ہے کہ نومنتخب وفاقی حکومت وزیر اعظم عمران خان کے ویثزن کے مطابق ملک میں کھیلوں کے فروغ لئے نئی سپورٹس پالیسی متعارف کروائے، کھیلوں کے شعبہ میں سیاست اور اجارہ داری کے خاتمہ کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح سپورٹس میں بھی احتساب کا عمل متعارف کرائے گی۔وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ فہمیدہ مرزا آج یہاں پی ایس بی اسلام آباد میں پی او اے سے اسکی کارکردگی کے حوالے سے ایک بریفنگ لے رہی تھیں۔ اس موقع پر پی او اے کے سر براہ جنرل(ر) عارف حسن اور سیکرٹری پی او اے خالد محمود نے وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا کو رضیہ بٹ کے ناول کی کہانی کی طرز پر اولمپکس گیمز،ایشین گیمز،کامن ویلتھ گیمز اور سیف گیمز میں پاکستان کی سابقہ کارکردگی کی کہانی سنائی، اس دوران وہ بار بار برطانوی اور دیگر مغربی ممالک کی سپورٹس کارکردگی اور بجٹ کے حوالے دیتے پائے گئے،جسپر پر آیک بار تو وفاقی وزیر نے تنگ آکر انہیں یہ تک کہہ ڈالا کہ آپ بار بار برطانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی بات کیوں کرتے ہیں۔اپنی بات کریں۔ اس موقع پر صدر پی او اے نے ایک بار پھر فنڈز کی کمی کا رونا رونا شروع کر دیا۔جس پر وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ فہمیدہ مرزا نے کہا کہ یہ بات اپنی جگہ اہم لیکن اپنی کارگردگی بھی بتایئں۔انہوں نے کہا کہ وہ کل وزیر اعظم عمران خان کو سپورٹس کے اوپر بریفنگ دیں گیں۔اور انہیں ملک میں کھیلوں کی بحالی کے لیے اپنی وزارت کی جانب سے تیار کردہ نئی سپورٹس پالیسی سے آگاہ کریں گیں اور ان سے اس کی منظوری لیں گیں،انہوں نے اس موقع پر صدر پی او اے سے سوال کیا کہ سابقہ سپورٹس پالیسی میں ٹرم کے حوالے سے عمل درآمد کے معاملہ میں انہیں کیا اعتراض تھا؟ جس پر صدر پی او اے کا کہنا تھا کہ کچھ نہیں لیکن آئی او سی کے قوانین مختلف ہیں۔ وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ فہمیدہ مرزا نے بریفنگ میں موجود صحافیوں کو پی او اے کی کارگردگی کو بہتر بنانے کے لئے تجاویز دینے کے لئے کہا جس پر اسلام آباد کے صحافیوں نے پی او کو آڑے ہاتھوں لیا اور کئی تکلیف دے سوالات کئے جن میں ایشین گیمز میں پاکستانی کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی، جوائے رائیڈنگ کے لئے من پسند افراد کو لے جانے ، سفارتی کھلاڑیوں کے انتخاب،مں پسند آفیشلز اور فیڈریشنز عہدیداروں کو آفیشل بنا کر سیاحت کروانے۔ایشین گیمز جیسے ایونٹ میں فیڈریشن عہدے داروں کے بیوی بچوں کو ساتھ لے جا کر ملک کے لئے بدنامی کا باعث بننے والے لوگوں کو تحفظ دینے۔اور صدر پی او اے کے پندرہ سال سے عہدے پر قابض ہونے جیسے سوالات شامل تھے جنہیں سن کر پی او اے کے عہدے داروں کے رنگ بدلتے رہے اور وہ عملی طور پر لاجواب نظر آئے۔ تاہم ہمیشہ کی طرح ایک درجن سے زائد صحافیوں کی جانب سے اس عزت افزائی کے باوجود اس بریفنگ کے بعد چیختے نظر آئے۔