تحریر : آغا محمد اجمل
کھلاڑیوں میں کردار سازی کے حوالے سے جب ہم حدود متعین کرتے ہیں تو سب سے پہلے وہ اخلاقیات ہوتی ہیں جن کی نوعیت عالمگیری ہوتی ہے۔ دوسری سماجی اقدار ہوتیں ہیں اور تیسری مزہبی۔ ان مندرجہ بالا حدود کو مدِنظر رکھتے ہوئے درجہ بہ درجہ کھلاڑیوں کو ان اقدار سے روشناس کروانا چاہیے۔
عالمگیری اخلاقیات ان کے اندر کنفیوژن پیدا نہیں ہونے دیتی۔ کیونکہ اس نے اس معاشرے کے اندر رہ کر اپنے روزمرہ کے معملات کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ جب یہ ہضم ہو جائیں اس کے کردار کا حصہ بن جائے اور ان کے بارے میں جب ایک واضح تصور بن جائے تو پھر ہم ان کو سماجی اقدار سے متعارف کروائیں گے کیونکہ اس کو فوری طور پر معاشرے سے واسطہ پڑتا ہے۔ سماج مخٹلف سطحوں پر مشتمل ہوتا ہے جس سے روشںاس ہوکر اس نے اپنے کینوس کو عالمگیریت کے لبادے میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ سماجی اقدار کئی ایسے پہلوؤں سے مزیّن ہیں جن سے اپ نے فیضیاب ہونا ہے۔ سماجی اقدار کے اندر کئی قدریں ہیں جن کو اس نے اپنی شخصیت کا حصہ بنانا ہوتا ہے۔ ان سماجی اقدار کو سمجھنے اور جذب کرنے کی صلاحیت اس نوجوان کو عالمگیری اقدار کو بحسن خوبی سمجھنے اور جذب کرنے کا حوصلہ پیدا کردیتی ہے۔
ابھی ہمارا زیادہ زور وہ ہنر سکھا دینا ہوتا ہے جس کے بعد اس کوئی اچھی ملازمت مل جائے وہ ایک اچھا کھلاڑی تو بن جاتا ہے لیکن وہ شش و پنج کا مجسمہ بں جاتا ہے۔ اس لیئے مذہبی اقدار استدلال کا متقاضی ہے۔ اخلاقیات ہی ہے جو انسان کے عمل اور رویے میں ڈھلتی ہے تو کردار بن جاتا ہے۔ مثلاً جب اپ نے فیصلہ کرلیا کہ اپ نے سچ بولنا ہے جس وقت سچائی آپ کاطرز عمل بن جاتی ہے تو یہ آپ کا کردار ہے۔
بنیادی اخلاقیات تین ہیں۔ پہلا عدل دوسرا احسان اور تیسرا ایثار۔
گراس روٹ لیول پر کردار سازی میں کوچ کے کردار کی اہمیت مسلم ہے۔ اس لیے بچوں کے ہنر کو نکھارنا ضروری تو ہے لیکن سبز حلالی پرچم کا جھنڈا سربلند کرنے میں ان اخلاقی اقدار کر ٹریننگ کا لازمی حصہ بنانا کوچ پر لازم یے۔
ان بنیادی اخلاقیات کی کمی کی وجہ سے ہمارے کھلاڑیوں میں منافقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوٸی ہے۔ بابا ریاض سے جب میں نے فٹبال میں ابتری کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے۔ یار آغا ہمارے فٹبالرز منافقت کا آغاز بھی ہیں اور انتہا بھی ہیں۔