لندن (سپورٹس لنک رپورٹ)پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان رمیز راجہ نے بھارت کے خلاف قومی ٹیم کی پرفارمنس کے بعد کہا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ کے ساخت میں مکمل طور پر تبدیلی کا وقت آگیا ہے،جیسا کہ پاکستان کے لیے ورلڈکپ اب تقریبا ختم ہوچکا ہے کیونکہ اس کا رن ریٹ صرف افغانستان سے بہتر جبکہ دیگر تمام ٹیموں کے مقابلے میں کم ہے، اگر پاکستان اپنے تمام میچز جیت بھی جائے تب بھی اس کا سیمی فائنل میں پہنچنا تقریبا ناممکن ہے۔رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ ہر شکست کے بعد جائزہ لیا جاتا ہے، تاہم ہر شکست کے بعد تبدیلی ضروری ہے اسی لیے میرا خیال ہے کہ اب پاکستان کرکٹ کی ازسرنو تعمیر کا وقت آگیا۔ورلڈکپ 1992 جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے رکن کا کہنا تھا کہ بھارت سے شکست کے بعد آپ کا ورلڈکپ تقریبا ختم ہوچکا ہے، اگر مزید کسی میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو آپ کے شائقین ناراض ہوجائیں گے۔انہوں نے اپنی بات کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے نظام، کپتانی اور مہارت پر سوالیہ نشان لگ جائے گا، جب آپ اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے تو مایوسی مزید بڑھ جاتی ہے۔رمیز راجہ نے پاکستان کی ٹیم میں نوجوان کھلاڑیوں کی شمولیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ‘یہ بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا، کیونکہ میرا ماننا ہے کہ آپ اسکواڈ میں دو 38 سالہ کھلاڑیوں کے ساتھ ورلڈکپ نہیں جیت سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی کرکٹرز کی مہارت گزشتہ 2 برسوں کے دوران مزید خراب ہوگئی۔سابق کپتان نے کہا کہ یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کا ‘ناقابل پیش گو’ کا ٹیگ ہٹ جائے گا، لیکن اب تو یہ ٹیگ بہت واضح ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ورلڈکپ میں انگلینڈ کے خلاف فتح غیرمعمولی تھی، حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کو ورلڈکپ کے ہر میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ ایک ٹیم کو ورلڈکپ کی تیاری کرنے اور مسابقتی ٹیم بننے کے لیے 5 سال لگتے ہیں، لیکن پاکستانی ٹیم اتنے عرصے میں اپنی مہارت ہی بہتر کرنے میں ناکام رہی۔اپنی بات کی وضاحت انہوں نے کپتان سرفراز احمد کے بیٹنگ نمبر سے دیتے ہوئے کہا کہ ایک شخص چھٹے یا ساتویں نمبر پر بیٹنگ کرتا ہے لیکن وہ اچانک 5 ویں نمبر پر بیٹنگ کرنے آتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان اس عرصے میں بہترین بیٹسمین لانے میں ناکام رہا ہے۔انہوں نے بابر اعظم اور فخر زمان کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھا دیے اور کہا کہ بابر اعظم کے ٹیلنٹ کا کیا فائدہ اگر وہ پاکستانی ٹیم کو فتح کی جانب نہ لے جاسکے، فخر زمان کی اوپننگ کا کیا فائدہ اگر وہ روہیت شرما کی طرح بیٹنگ ہی نہ کر سکیں؟ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان واضح فرق ہی یہ تھا کہ جب حریف ٹیم کے بیٹسمین سیت ہوئے تو انہوں نے بڑا اسکور کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے 2 اسپنرز کے ساتھ میچ میں جانے کے فیصلے پر بھی سوالیہ نشان ہے ، کیونکہ بھارتی کھلاڑی اسپنر کو اچھا کھیلتے ہیں۔رمیز نے مزید کہا کہ حسن علی بہتر انداز میں بالنگ نہیں کر رہے، انہیں آرام کروانا چاہیے، کیونکہ اپ تسلسل کے ساتھ انہیں ٹیم میں نہیں رکھ سکتے۔انہوں نے کہا کہ وہاب ریاض بھارت کے خلاف میچ میں ایک یارکر گیند نہ کرواسکے، تاہم محمد عامر وہ کھلاڑی تھی تو ایک اینڈ سے بھارت کے خلاف لڑ رہے تھے۔ان کا کہناتھا کہ اگر مہارت کی بات کی جائے تو بھارتی کھلاڑی سرفہرست ہیں جبکہ پاکستانی کھلاڑی آخری درجے پر ہیں۔انہوں نے پاکستان کی بھارت سے شکست پر کہا کہ جب تک کھلاڑیوں کا دماغ ان کی مہارت سے نہیں ملے گا تب تک وہ بھارت کو ورلڈکپ میں شکست نہیں دے سکیں گے۔