تحریر : آغا محمد اجمل
پاکستان فٹ بال فیڈریشن میں مجھے میڈیا مینجرکا چارج سنبھالے ہوئے ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا کہ پاکستانی ٹیم پنجاب فٹ بال سٹیڈیم میں بیرونی دورے کے لیے پندرہ روزہ کیمپ لگانے جا رہی تھی اس سلسلے میں میڈیا کوریج کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لیے میں ٹیم کے ہمراہ پنجاب سٹیڈیم میں موجود تھا۔ گزشتہ رات کی بارش کی وجہ سے گراونڈ میں پانی کثیر مقدار میں موجود تھا ۔کوچ طارق لطفی نے گراونڈ کی کنڈیشن کو مد نظر رکھتے ہوئے کیمپ کے شیڈول کو کم کرتے ہوئے صرف ایکسرسائز تک ہی رہنے دیا ۔ اسی وقت ایک لڑکا جو کہ پنجاب سٹیڈیم کے ایڈمنسٹریٹر کے فرائض سرانجام دے رہا تھانے طارق لطفی کو گراونڈ حوالے کرنے سے انکار کرتے ہوئے آج کے ٹریننگ سیشن کو کل تک ملتوی کرنے کا کہا۔ اس لڑکے نے اپنے موقف کوخوبصورت اور مدلل انداز سے پیش کیا جس کی وجہ سے طارق لطفی نے اگلے دن سیشن کرنے پر رضامند ہوگئے۔ میانوالی کی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اس لڑکے کا نام محمد ناصر ملک ہے ۔یہ اس لڑکے سے میرا پہلا تعارف تھا۔ اس کے مدلل نقظہ نظر نے مجھے اس کا گرویدہ کر دیا اور اس کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں مجھے اس کے تابناک مستقبل کی گواہی دے رہیں تھیں۔
2011 میں پنجاب فٹ بال سٹیڈیم کا ایڈمنسٹریٹر تھا۔ سپورٹس بورڈ پنجاب میں اسٹنٹ ڈائیریکٹڑ ڈویلپمنٹ اینڈ پلاننگ جیسے کلیدی عہدے پر فائض رہا اور آج کل اسسٹنٹ ڈاٸییکٹر ایڈمن پر فاٸز ہے۔ فزیکل ایجوکیشن میں ماسٹر ہولڈر ہونے کے ساتھ ساتھ جرمنی میں سپیشلائزیشن برائے سپورٹس فار ڈس ایبل کا کورس بھی کیاہوا ہے۔ تحصیل سپورٹس آفیسر سے اپنے پروفیشنل کیریر کا آغاز 2010 میں کیا ۔ پنجاب فٹ بال سٹیڈیم کے ایڈمنسٹریٹر کا چارج 2011 میں لیا۔ 2012 میں ان کی تیعناتی کلر کہار میں تحصیل سپورٹس آفیسر کر دی گئی لیکن کچھ عرصے بعد ان کی خدمات دوبارہ سپورٹس بورڈ پنجاب کے حوالے کر دی گئیں۔ جہاں پر انہوں نے چھ ماہ تک سیکشن آفیسر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ رہے ۔ ان کی بہترین کارگردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو اسٹنٹ ڈائریکڑ پلاننگ اینڈ ڈویلپنٹ کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ آٹھ سال تک سپورٹس بورڈ میں کنٹریکٹ پر کام کرتے رہے اور حال ہی میں انہوں نے پنجاب پبلک سروسز کمیشن کے انٹریو میں 49 تحصیل سپورٹس آفیسر کے بیج میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی اور ثابت کر دیا کہ خلوس نیت سے کی گئی کاوش ایک دن ضرور بار آور ہوکر رہتی ہے۔