مسرت اللہ جان
1980 کی دہائی میں ہمیں ایک بات سننے کو ملتی تھی کہ پڑھو گے لکھو تو بنو گے نواب ، کھیلو گے کودو گے تو ہوگئے خراب ، پھر وقت بدلا اور ہم ورلڈ کپ جیت گئے جس کا نتیجہ تو ماشاء اللہ آج پوری قوم بھگت رہی ہیں مگر اس ورلڈ کپ کے بعد یہ شعر تبدیل ہوگیا اور لوگ کہتے تھے کہ پڑھو گے لکھو گے تو ہوگے خراب ، کھیلو گے کودو گے تو بنو گے نواب ..او ر پھر نوابوں کی تعداد بڑھتی گئی ، آج کی دنیا جدید دور کی دنیا ہے اب یہ مقولہ کچھ اس طرح ہے کہ کھیلوں کے شعبے میں افسر بنو گئے تو بنو گئے نواب ، کھیلو گے یا پڑھو گے تو ہوگے خراب …اور رہ گئی خراب ہونیوالی بات تو خراب وہ بھی نہیں ہوئے جو جعلی کاغذات میں سپورٹس کے شعبے میں بھرتی ہو کر کوچ بن گیا باتیں تو یہ ساری معترضہ ہے اور یقینا بہت سارے لوگوں کو اس آخری شعر پر اعتراض ہوگا خصوصا انہیں جو ہے توسرکار کے ملازم ، مگر ٹھیکیدار بن گئے ہیں ،ویسے ایک بات ہے کہ سرکار کے ملازمت کرتے ہوئے بھی انسان بیوی سے بہت زیادہ ڈرتا ہے اس لئے بیو ی کے رشتہ دار کو ہی ٹھیکے ملتے ہیں .خیرچھوڑیں اپنی اصل بات کی طرف آتے ہیں..
تب .. دی.. لی والی سرکار جب سے آئی ہیں ان کی اپنی ہی پالیسی ہے ہر چیز میں نئی پالیسی نے ہر شعبے کا بیڑہ غرق کردیا ہے یہ الگ بات کہ انہیں کسی بھی شعبے کا تجربہ نہیں لیکن انہیں عوام کے ٹیکسوں کو اڑانے کا تجربہ حاصل کرنا ہے اس لئے نت نئے تجربے کئے جارہے ہیں-خیبر پختونخواہ میں کھیلوں کیساتھ کھلواڑ بھی صوبائی وزیراعلی جن کے پاس سپورٹس کے شعبے کا اضافی چارج موجود ہے خود ہی کررہے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سینکڑوں ملازمین پر مشتمل سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ایک نیا پراجیکٹ صرف من پسند افراد کو بھرتی کرنے کیلئے شروع کیا گیا .بیورو کریسی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ کیسے اڑایا جا رہا ہے.. جن کو اس بارے میں پتہ ہے وہ ” کھیلوں کے فروغ” کے نام پر شہر خموشاں میں خاموش ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا رزق اسی ” مالش اور مکھن لگانے ” میں ہیں.
مکھن لگانے سے یاد آیا کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں جاری ایک ہزار کھیلوں کے پراجیکٹ میں مکھن تو کیا عوام کو چونا لگایا جارہا ہے قصہ مختصر یہ ہے کہ اب تک پینتیس کے قریب جیم تیار کئے گئے ہیں جسے اوپن ائیر جیم کا نام دیا گی ہے ویسے اس شہر میں جہاں پر سپورٹس کی کسی بھی سرگرمی کیلئے بچوں سے ماہانہ ایک ہزار روپے فیس سرکار کے گرائونڈ میں داخل ہونے کیلئے لی جارہی ہوں وہاں پر اوپن ائیر جیم کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ عوام کے ٹیکسوں کو اڑایا جائے جس طرح کسی بھی سپورٹس فیسٹیول میں آتش بازی کے نام پر ہزاروں کے آتش بازی کو لاکھوں میں اڑایا جاتا ہے تاکہ ثبوت بھی نہ ہوبس اسی طرح کا کام اوپن ائیر جیم کے نام پر بھی جاری ہے
، مزے کی بات تو یہ ہے کہ پراجیکٹ کے تحت بننے والے ہر اوپن ائیر جیم کی قیمت اکیس لاکھ روپے ہیں جن میں قیوم سٹیڈیم پشاور میں زیادہ مشینیں لگائی گئی ہیں جبکہ لیڈی گارڈن ایبٹ آباد میں کم مشینیں ہیں اسی طرح بعض جگہو ں پر مشینوں کی تعداد یکساں نہیں.اسی طرح اب تک سات کروڑ سے زائد کی رقم اوپن ائیر جیم کے نام پر اڑائی جاچکی ہیں – ایبٹ آباد کے لیڈی گارڈن میں چار ماہ قبل ایک ہزار کھیلوں کے میدان میں بننے والا اوپن ائیر جیم کے بعض حصے مکمل طور پر ٹوٹ گئے ہیںاس جیم کا افتتاح سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی مشتاق غنی نے کیا تھا اور یہ صوبائی حکومت کی جانب سے شروع کئے جانیوالے ایک ہزار کھیلوں کے پراجیکٹ کا حصہ تھا جس کیلئے اربوں روپے مختص کئے گئے ہیںلیڈی گارڈن سمیت ایبٹ آباد کے چار پارکوں میں اوپن ائیر جیم بنانے کا دعوی کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں مشتاق غنی نے چھ جولائی کو اپنے فیس بک پر تصاویر بھی دی تھی جبکہ باقاعدہ اخبارات میں اوپن ائیر جم کے حوالے سے بڑے دعوئے کئے گئے تھے لیکن ایبٹ آباد کے کینٹ میں واقع لیڈی گارڈن پارک میں صرف چار ماہ میں اوپن ائیر جم کے بعض حصے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے ہیں جبکہ بعض چیزیں مکمل طور پر اس ائیر جیم سے غائب ہوگئی ہیں جس کی جانب ابھی تک نہ تو ایبٹ آباد کی انتظامیہ نے کوئی توجہ دی ہے نہ ہی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی جانب بنائے گئے خصوصی پراجیکٹ کی انتظامیہ نے اس غیر معیاری کام پر توجہ دی
کھیلوں کے میدان کے نام پر جاری اس پراجیکٹ میں 167 سکیموں پر تعمیر کا کام جاری ہے تاہم یہ سکیمیں کہاں پر ہیں اس بارے میں بھی خاموشی اختیار کرلی-د وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے محکمہ سپورٹس میں کھیلوں کے میدان بنانے کے منصوبے کا آغاز 2019-20 میں کیا گیا جس کیلئے ابھی تک کسی اہلکار کو نہیں لیا گیا اس منصوبے کیلئے سال 2019 میں پہلا اشتہار جاری کیا گیا جس میں ڈرائیو ر کی دو خالی آسامیاں ، نائب قاصد کی تین آسامیاں جبکہ سویپر کی ایک آسامی مشتہر کی گئی تاہم اس پر کوئی بھرتی نہیں کی گئی بہ تمام چھ آسامیاں ہیں تاہم ایک سال بعد پھر دوبارہ اشتہار جاری کیاگیا جس میں ڈرائیور کی آسامیاںپانچ کردی گئی جبکہ نائب قاصد کی دو آسامیاں جاری کردی گئی اسی طرح ایک ہی پراجیکٹ میں پہلے سال جاری ہونیوالے اشتہارات میں ملازمین کی تعداد چھ تھی جس میں سویپر بھی شامل تھا لیکن دوسرے سال 2020 میں جاری ہونیوالے اشتہار میں سات آسامیاں مشتہر کی گئی تاہم اس میں سویپر کی آسامیاں غائب کردی گئی تاہم حیرت انگیز طور پر تعداد سات تک پہنچ گئی حیران کن بات یہ ہے کہ پراجیکٹ ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک کلاس فور ملازمین کو بھرتی نہیں کیا گیا اور اس کی سکروٹنی کا عمل جاری ہے. یعنی افسران کی لاکھوں کی تنخواہیں ، ٹی اے ڈی اے اور لاکھوں کی گاڑیوں کی فیول اب تک اڑائی جا چکی ہیں لیکن غریب کلاس فور کی بھرتی کیلئے سکروٹنی کا عمل جاری ہے. صرف اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ورلڈ کپ جتوانے والے کھلاڑی وزیراعظم کی حکومت میں کیسے کیسے کھیل کھیلے جارہے ہیں- اور یہ بھی اس صوبے میں جہاں پر تب.. دی .. لی کے نام پر سب سے زیادہ لوگوں نے ڈانس کیا تھا.
کسی بھی شعبے میں بھرتی کیلئے کوئی طریقہ کار موجود ہوتا ہے اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ڈرائیور کی بھرتی کیلئے جس کا گریڈ چھ ہے میں تجربہ مانگا گیا تاہم 5500 ملین ڈالر کے اس منصوبے کو حیرت انگیز طور پر ڈیپوٹیشن پر آنیوالے افسران سے چلایا جا رہا ہے ایسے شخص کو پراجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر لیا گی ہے جس کا کھیلوں کے شعبے سے کوئی تعلق ہی نہیں اورصرف کتب میلوں تک ہی تجربہ انکا رہا ہے وفاقی حکومت کے نیم سرکاری ادارے نیشنل بک فائونڈیشن کی جانب سے ڈیپوٹیشن پر پراجیکٹ ڈائریکٹر کو تعینات کیاگیا ہے اس منصوبے میں پراجیکٹ ڈائریکٹر کے علاوہ دو ڈپٹی ڈائریکٹر ایک سسٹنٹ ڈائریکٹر جنہیں ڈیپوٹیشن پر لایا گیا ہے سے کام چلایا جارہا ہے اسی طرح حال ہی میں سات نئے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز جس کیلئے این ٹی ایس کا ٹیسٹ بھی کیا گیا ہے کو پراجیکٹ کی حد تک کیلئے لیا جائیگا تاہم یہ افراد بھی انجنیئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں . اس منصوبے میں افسران تو ڈیپوٹیشن پر لائے گئے تاہم کلاس فور کی بھرتی ایک سال سے سست روی کا شکار ہیں-
کھیل کے شعبے میں عوامی ٹیکسوں کا پیسہ اللے تللوں میں اڑایا جارہا ہے جس معیار کے اوپن ائیر جم تیار کئے جارہے ہیں امید کی جارہی ہیں کہ ایک ہزار کھیلوں کے میدان تو کاغذوں میں مکمل ہوجائینگے مگر تین اور چار ماہ کے بعدغیر معیاری طور پر بننے جیم حقیقت میں بالکل نہیں ہونگے باڈی بلڈنگ کیلئے بنائے جانیوالے اوپن ائیر جیم سے متعلق اسی شعبے کے ایک ماہر کے مطابق جس معیار کی مشینیں انہیں اوپن ائیر جیم میں لگائی گئی ہیں وہ زیادہ سے زیادہ سات لاکھ روپے کی ہیں لیکن… خوش کس کو کیا جارہا ہے اور پیسہ کس کو جارہا ہے اس بارے میں تب .. دی.. لی والی سرکار بھی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں او ر بیورو کریسی بھی خاموش ہیں کیونکہ ان کی پیٹ کی آگ ختم ہی نہیں ہورہی, .جس کا نتیجہ کھیلوں کے شعبے میں بھی یہاں تک آگیا کہ اب مختلف کھیلوں میں خیبر پختونخواہ کے کھلاڑیوں کی تعداد کم ہورہی ہے