مسرت اللہ جان
کھیل کا میدان کھلاڑیو ں کیلئے زندگی کی مانند ہوتا ہے اور کھلاڑیوں کی زندگی کرونا کے باعث گذشتہ کم و بیش دو سال وینٹی لیٹر پر ہے اسی وینٹی لیٹر پر بعض کھیل تو جیسے کرونا کا شکار ہوگئے ہیں جبکہ بعض کھیل زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے ‘ حکومت کی سرپرستی میںتو کرکٹ کے کھیل کو خوب پذیرائی مل رہی ہے جبکہ دیگر کھیل جیسے کرونا کا شکارہیں ‘ ان میں وہ دم و خم نہیں جوزندگی کی علامت ہوتی ہیں لیکن اس دم و خم میں کردار کس کا ہے ‘ ان کو اس حال تک پہنچانے والے کون ہیں اور کروڑوں کی فنڈنگ کے باوجود ہم کھیلوں کے میدان میں پیچھے کیوں جارہے ہیں یہ آج کا بڑا سوال ہے.آج کے اس بنیادی سوال کے بارے میں جاننے سے پہلے یہ سوال پر ہمیں خود سے کرنا چاہئیے کہ کیا صرف حکومت ہی کھیلوں کی فرو غ کی ذمہ دار ہے ‘ خود کھلاڑی ‘ کھیلوں کے ایسوسی ایشنز اور معاشرے پر بھی کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا نہیں . یہ وہ چند سوالات جو بنیادی سوالات سے جڑے ہوئے ہیں.
آج سے کم و بیش تین دہائی قبل کسی بھی کھیل میں اتنا پیسہ نہیں ہوتا تھا جتنا آج ہے ‘ کھلاڑی فٹنس کی خاطر کئی میل دور جا کر مختلف جگہوں پر مختلف کھیل کھیلتے ‘ فٹ بال ‘ ہاکی ‘ کرکٹ ‘ بیڈمنٹن ‘ اتھلیٹکس سمیت متعدد کھیلوں کے کھلاڑیوں کے پاس اپنے کھیل کے شوز تک نہیں ہوتے ‘ سپورٹس کٹس تو بڑی بات ہوتی تھی لیکن اس وقت کھلاڑیوں میں جذبہ ہوتا تھا وہ جذبہ جو اپنے آپ کو اگے رکھنے اور برداشت کرنے کی تربیت بھی دیتا اورساتھ میں ملک کا نام روشن کرنے کی ہمت بھی دیتا تھا . کھلاڑی کھیلوں میں زخمی بھی ہو جاتے لیکن پھر ان کا جنون انہیں اگے لے آتا تھا.
وقت کیساتھ ساتھ مختلف کھیلوں میں پیسہ آنے لگا.اور بقول کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب والا مقولہ وقت نے ٹھیک ثابت کردیا ‘ مختلف کھیلوں میں نہ صرف بین الاقوامی اداروں کی جانب سے پیسہ آنے لگا بلکہ حکومتی پالیسیوں میں بھی تبدیلی آگئی اور کھیلوں کا فروغ حکومتی ترجیحات میں شامل ہوگیا .پیسے کی بھر ما ر نے کھلاڑیوں کی بھی مت مار دی ‘ ایسے کھلاڑی جو کھیل کے میدان سے ریٹائرڈ ہوگئے تھے اب انہوں نے اپنے پ کو ان رکھنے کیلئے ایسوسی ایشنز کے سہارے لینے شروع کردئیے اور پھر کھیل ایسا شروع ہوگیا کہ کھیلوں کے ایسوسی ایشنز پر مخصوص افراد کا قبضہ ہوگیا جو اسی کھیل سے وابستہ تھے ‘ بلکہ بعض تو ایسے ایسوسی ایشنز بھی بن گئے جن سے وابستہ افراد کو کھیلوں کے عمومی معلومات تھی اوریہ معلومات ابھی بھی عمومی ہی ہیں.
گذشتہ بیس سالوں میں خیبر پختونخواہ میں کھیلوں کے مختلف ایسوسی ایشنز کے مختلف عہدوں پر تعینات افرادکون ہیں اور کب سے ہیں کتنے کھیلوں کے ایسوسی ایشنز سے کتنے کھلاڑی وابستہ ہیں اور کتنے سرکاری عہدے رکھنے والے افراد ہیں ‘ کتنے این جی اوز کے مالکان ہیں.کتنے ایسے افراد ہیں جو کھیلوں کیلئے رقمیں خرچ کرتے ہیں یا پھر سپانسرڈھونڈ نکالتے ہیں اور کھلاڑیوں کو سہولیات پہنچاتے ہیں اس بارے میں کسی کو معلومات حاصل ہی نہیں.کیونکہ ایسوسی ایشنز بنتی ہیں عہدے تقسیم ہوتے ہیں اور پھر اس کے بعد انتخابات ہوجاتے ہیں اور مخصوص لوگ کئی سالوں سے عہدوں پر تعینات ہیں یہ لوگ قانونی خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ خود کھیلوں کے ایسوسی ایشنز پر قابض ہیں بلکہ اپنے رشتہ داروں ‘ بچوں کو بھی کھیلوں کی ایسوسی ایشنز پر قبضہ مافی کی طرح لا رہے ہیں – یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری و ساری ہے.
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کھیلوں کی وزارت خواہ وہ صوبائی سطح پر ہو یا وفاق کی سطح پر ‘ یہ الگ بات کہ یہاں پر حکومت کی بڑی غلطی ہیں کہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد بھی وفاق کے زیر انتظام بڑے ادارے کام کررہے ہیں جن میں تعینات اہلکارکرتے تو کچھ نہیں لیکن تنخواہوں’ مراعات ‘ کی مد میں لاکھوں روپے نکالتے ہیں اس معاملے میں حکومت اداروں کی غلطی اور پالیسیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی ایسوسی ایشنز کے عہدیدار امزوں میں ہیں ہیں حکومتی ادارے اول تو سوال ہی نہیں کرتے کہ ایسوسی ایشن کس طرح بنی ہیں ‘ کون کون سے ممبرز ہیں ‘ کیا ایسوسی ایشنز میں شامل افراد کا کسی نے کریمنل ریکارڈ چیک کیا ہے یا نہیں ‘ کتنے عہدیدار ایسے ہیں جو ایک تنظیم میں ایک عہدے پر ہیں تو دوسری تنظیم میں دوسری عہدے پر کام کررہے ہیں . ان سے پوچھنے والا کوئی بھی نہیں.نہ ہی تنظیموں ایسوسی ایشنز کی رجسٹریشن کرنے والے ادارے ‘ نہ ہی کھیلوں کے متعلقہ ادارے جو گرانٹس اور فنڈز ان تنظیموں کو فراہم کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور.. آنکھیں بند کرنے کی اس پالیسی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ سوائے چند کھیلوں کے صوبے میں مخصوص کھیلوں پر مخصوص افراد قبضہ جمائے ہوئے ہیں.کیااب تک کسی نے یہ چیک کرنے کی کوشش کی ہے کہ کتنے نئے کھلاڑی ایسوسی ایشنز نکال کر لائے ہیں یا پھران کھلاڑیوں کی کوئی کیلئے سپانسرشپ ‘ بین الاقوامی سطح کے مقابلوں کیلئے کوئی کردار ادا کیا ہو.اس بارے میں بھی خاموشی ہے یہ سوال صوبے میں وزارت کھیل سے وابستہ افراد کا ہے
مزے کی بات یہ ہے کہ بعض کھیلوں کے انڈر 13 سے لیکر 19 تک کئی سالوں سے مخصوص لوگ کھیل رہے ہیں جس طرح تنظیم پر مخصوص افراد عہدوں پر قابض ہیں اسی طرح چند کھیلوں پر مخصوص کھلاڑی بیٹھے ہوئے ہیں اور کئی سالوں سے تنظیموں کے عہدیدار اور کھلاڑی مزوں میں ہیں ‘ لیکن نئے کھلاڑی سامنے نہیں آرہے ‘ بعض ایسے کھلاڑی بھی ہیں جوصوبے کی سطح پر ٹاپ پزیشن پر ہیں لیکن قومی سطح کے مقابلوں میں ان کی کوئی حیثیت ہی نہیںان حالات میں صوبے میں کھیل کس طرح فروغ پا سکتے ہیں اور نئی کھلاڑی کس طرح آسکتے ہیں
ان سب باتوں کیساتھ ساتھ بعض تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو سالہا سال سے کاغذوں میںہوتی ہیں ‘ گرانٹس کیلئے سکرین پر نظر آتی ہیں ‘ دفاتر ان کے کہیں پر بھی نہیں ‘ نہ ہی پشاور چارسدہ نوشہرہ اور مردان کے علاوہ صوبے کے پینتیس اضلاع میں ان کے کوئی نمائندے ہیں نہ ہی ان چار پانچ علاقوں کے علاوہ یہ لوگ کہیں پر سپورٹس کے مقابلے منعقد کرواتے ہیں ‘ چارسدہ ‘ بنوں ‘ ڈی آئی خان ‘ نوشہر ہ ‘ مردان اور پشاور کے علاوہ کوئی بھی ایسوسی ایشن گذشتہ دس سالوں میں یہ دکھا دیں کہ انہوں نے وزیرستان میں کوئی مقابلہ کروایا ہو ‘ تورغر میں کوئی مقابلہ ہوا ‘ تیراہ میں کوئی مقابلہ منعقد کروایا گیا ہو ‘ چند مخصوص شہروں کے مخصوص افراد کو کھیلوں کی دنیا میں شامل کرکے ہم دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم کھیلوں کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں.اور یہ سلسلہ پورے صوبے میں جاری ہے حالانکہ حقیقت میں چند مخصوص افراد کی مخصوص شہروں میں اجارہ داری ہے .
یہ تو شکر ہے کہ کھیلوں میں شامل کھلاڑیوں کا ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ کرنے کا سلسلہ چند سال قبل شروع ہوگیا ‘ ورنہ اس سے قبل اگر کہیں مقابلے ہوئے تو چند مخصوص کالجزکے طلباء و طالبات کو کو الگ الگ ناموں سے مقابلوں میںشامل کرکے ظاہر کرایا جاتا کہ پورے صوبوں کی نمائندگی چل رہی ہیں ‘ بعض ایسے ایسوسی ایشنز بھی تھی جنہوں نے ایک ہی کھیل کے کھلاڑیوں کو متعدد کھیلوں میں شامل کروایا ‘ یعنی بنیادی طور پر کھلاڑی اتھلیٹکس کے تھے ‘ لیکن انہیں دیگر کھیلوں میں بھی شامل کروایا گیا نام کنفرم کرنے اور دیکھنے کی کسی میں ہمت نہیں ہوتی تھی اس لئے ٹی اے ڈی اے مخصوص افراد کیساتھ ساتھ ایسوسی ایشنز کے کرتا دھرتائوں کے جیبوں میں جاتاکیونکہ کھلاڑی تو کئی کھیلوں میں حصہ لیتے لیکن انہیں ٹی اے ڈی صرف ایک کھیل میں حصہ لینے کی ملتی جبکہ دیگر کھیلو ں کی مد میں سے نکلنے والی رقم مخصوص ایسوسی ایشنز کے اہلکار اور چند سرکاری اہلکار جیب میں ڈال دیتے.سب کچھ مینوئل طریقے سے ہوتا ‘ شناختی کارڈ ‘ فارم ب دیکھنے کی کوئی غلطی نہ کرتا. لیکن ان حالات میں بھی بعض ایسے افراد اب بھی موجود ہیں جنہوں نے کھیلوں کے مختلف مقابلوں میں اورایج کھلاڑیوں کو مواقع دئیے لیکن جب انعام دینے کی باری آئی تو پھر مطالبات کام چلایا جاتا ہے..