سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ ، دو دونی بائیس
مسرت اللہ جان
خیبرپختونخواہ میں کھیلے جانیوالے مختلف کھیلوں سے اور کھیلوں سے وابستہ ڈائریکٹریٹ اور کھیلوں کی تنظیموں سے یاری ، دوستی ، تعلق اور ریفرنس کاسلسلہ یقینی طورپر ختم کیا جائے تو خدا گواہ ہے کہ نہ صرف یہ ادارے دن دگنی رات چوگنی ترقی کرینگے
بلکہ اس کے باعث کھلاڑی بھی میرٹ پر آئیں گے اور وہ نہ صرف صوبائی بلکہ قومی سطح کے مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کریں گے – لیکن مصیبت یہی ہے کہ کھیلوں سے وابستہ افراد نے نہ صرف کھیلوں کو کھیل سمجھ رکھا ہے بلکہ اس کے وابستہ کھلاڑیوں کو بھی کھیل سمجھ کر کھلا رہے ہیں
اور تقریبا یہی حالت سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ اور ایسوسی ایشنز کی بھی ہے.جس کی وجہ سے پینتیس کے قریب کھیل مکمل طور پر ختم ہورہے ہیں اور کھلاڑی بھی زبوں حالی کا شکار ہیں.ایسے میں یہ رونا کہ کھلاڑی نہیں ہیں یا کھیلوں کے میدانوں میں نہیں آرہے صرف ایک ڈھکوسلہ ہی ہے.
کم و بیش تین سال سے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ٹارٹن ٹریک پر کام جاری ہے مزے کی بات یہی ہے کہ ٹارٹن ٹریک سمیت دو بڑے کام کسی اور کنٹریکٹر کو دئیے گئے ہیں
جبکہ کرسیوں کی تنصیب سمیت دیگر کام کسی اور کنٹریکٹر کے حوالے کئے گئے ہیں ان کنٹریکٹر پر آڈٹ رپورٹ میں بھی اعتراضات آئے ہیں کہ ان سے کٹوتی نہیں کی گئی
اور غیر معمولی تعاون کیا گیا جس کی تحقیقات اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی لیکن کارروائی کون کرے گا . یہ وہ بڑا سوال ہے جسے کرنے کی کسی میں ہمت نہیں- چلیں یہ بات تو رہنے دیں کہ اس کام پر اعتراضات آئے ہیں لیکن تین سال میں ٹارٹن ٹریک کیوں مکمل نہیں کیا جارہا ،
اسے سامنے کیوں نہیں لایا جارہا یہ سوال بھی ہے .اور ایسے کنٹریکٹر جس پر پہلے سے اعتراضات ہوں کو کس نے پشاورسپورٹس کمپلیکس کے ٹارٹن ٹریک کا کنٹریکٹ دیا .
ماضی قریب میں ایک خاتون ڈائریکٹرجنرل نے مختلف کنٹریکٹر کے فائلوں پر ان کی کارکردگی کی بنیاد پر اعتراضات لکھ کر دئیے تھے کہ کچھ کنٹریکٹرز کو مکمل طور پر بلیک لسٹ کیا جائے .
کیا ان بلیک لسٹ کنٹریکٹرز کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی یا پھر ان کے فائل راتوں رات تبدیل کئے گئے . یہ کس نے کئے ، یاری ، دوستی ، تعلق ، ریفرنس یا پھر قائد اعظم کا زور ، خیر کہنے والے تو بہت کچھ کہیں گے
لیکن اگر کنٹریکٹ کسی کو مل جاتا ہے تو پھر کام کی نگرانی کرنے والے کون ہیں ڈیپارٹمنٹ میں آنے سے قبل ان کے اثاثے کیا تھے اور اب کیا ہیں اور وہ کنٹریکٹرز سے کیوں اتنے مجبور ہیں کہ کام نہیں کراسکتے.
اندرونی ذرائع یہی بتا رہے ہیں کہ کنٹریکٹرزنے ڈیمانڈ کی ہے کہ اس کے اخراجات زیادہ ہورہے ہیں اس لئے انہیں زیادہ ادائیگی کی جائے. شائد مجبورا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کرتا دھرتاﺅں کو اب یہ ادائیگی کرنی بھی پڑ جائے لیکن یاری ، دوستی ،
تعلق ، ریفرنس یا پھر قائد اعظم کے زور کو ذرا ہٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اب تک کنٹریکٹر نے جتنے کنٹریکٹ مکمل کئے ہیں وہ کس حال میں ہیں. تبھی پتہ چل جائیگاکہ "ایک دونی دونی اور دو دو نی چار کے بجائے دو دونی بائیس” کاسلسلہ کس طرح چل رہا ہے.
د و دونی بائیس قانون کے مطابق تھروپراپر چینل نہیں لیکن "مڑہ پاکستان دے”او "اخبار والا پکے لادا کوم پکے سوک دی” والے جملے تو کوریج کے دوران ملتے ہیں یہ اس ڈیپارٹمنٹ کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ کھیلوں کے شعبے کو کبھی سیریس نہیں لیا گیا
ہاں جب فنڈز کی بھر مار ہوئی تو پھر صوبائی اسمبلی میں بھی وزیر کھیل کی قدر پیدا ہوئی تبھی تو اس ڈیپارٹمنٹ میں ایسے لوگ ڈیپوٹیشن پر لائے گئے جو اپنے ڈیپارٹمنٹ میں ” خیرخیریت والے” تھے پریذینٹیشن تک پیش نہ کرنے والے متعدد ایسے ہیں کہ "ان کے پاس مالش اور پالش”والے کام سمیت صاحبان کو خوش کرنے کا طریقہ بھی ہے تبھی تو کھیلوں کی ڈیپارٹمنٹ میں اہم عہدوں پر تعینات ہیں
ورنہ قبل ازیں کھیلوں کی وزارت میں مختلف محکموںسے ایسے لوگ لائے جاتے جن کی کھیلوں کے شعبے میں نمایاں پوزیشن ہوتی ،اوراپنی اس مہارت کے بل بوتے ان کی مینجمنٹ سمیت بہت سارے ایشو حل ہوتے لیکن برا ہو ، یار ، دوستی اور تعلق کا ،
قائد اعظم کے زور کویہاں کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس کی طاقت سب سے زیادہ ہے.تبھی اس ڈیپارٹمنٹ میں ایسے ایسے آرڈربھی کئے گئے جو غیر قانونی ہونے کے ساتھ ساتھ قابل گرفت بھی ہے
غیرقانونی اقدامات کی فہرست بنائی جائے تو پھر شائد ڈائریکٹریٹ ہی ختم ہوجائے اس کی ایک مثال سال 2023 میں ڈیپوٹیشن پرآنیوالے ایک صاحب کی ہے ان کی تعیناتی کیلئے دو اگست 2023 کو احکامات جاری ہوتے ہیںکہ متعلقہ افسر کی خدمات صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے حوالے کی جاتی ہیں ،
قانون کے مطابق ڈیپارٹمنٹ میں آنے کے بعد ڈیپارٹمنٹ متعلقہ افسر کو عہدہ دیتا ہے لیکن یہاں سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں اتنی اندھیرنگری تھی کہ ان صاحب کے آنے سے ایک روز قبل یعنی یکم اگست 2023کو ان صاحب کو اضافی ایک عہدہ دینے کیلئے نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ،
حالانکہ ڈیپوٹیشن پرآنیوالے صاحب کا عہدہ الگ تھا لیکن اضافی عہدہ انکے ڈائریکٹریٹ میںآنے سے قبل ہی انہیںدیا گیا ،یہ اس ڈائریکٹریٹ میں اتنی بدقسمتی ہے کہ سیکرٹری کو بھی اس معاملے میں بائی پاس کیا گیا
اور براہ راست آرڈرجاری کئے گئے . ایک سال قبل اس سلسلے میںرائٹ ٹو انفارمیشن میںسائل نے درخواست دی تھی وہ تو رائٹ ٹوانفارمیشن کمیشن کا شکریہ کہ ان کی وجہ سے یہ چیز سامنے آئی لیکن اصل بات تو اس کے بعدکی ہے.
اصل کہانی یہ ہے کہ سال 2023 میںمیرہ کچوڑ ی میں بننے والے سپورٹس کمپلیکس کو ڈی نوٹیفیائیڈ کیا گیا ، حالانکہ اس کی پیمنٹ کی گئی تھی اور ادائیگی کرنے کے بعد کنٹریکٹر کو ایوارڈ بھی کیا گیا تھا کہ اس پر کام شروع کیا جائے ،
اسی طرح بٹگرام میںبھی سپورٹس کمپلیکس کی زمین واپس کردی گئی حالانکہ ادائیگی ڈائریکٹریٹ نے کردی تھی ڈی نوٹیفیکیشن کرنے کے بعد عجیب ڈرامہ یہاں پر یہ کیا گیا کہ فنڈز کوفنانس کے جعلی لیٹر کے ذریعے ڈائریکٹریٹ میں لانے کیلئے ڈرامہ کیا گیا ،
ڈپٹی کمشنر بٹگرام نے اس کانوٹس لیا اور فنانس ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیاتوپتہ چلا کہ کروڑوں کی رقم ہتھیانے کیلئے فنانس ڈیپارٹمنٹ کا جعلی لیٹر جاری کیا گیا ،.جعلی لیٹر کس نے جاری کیا اور اسے جاری کرنے والے کون تھے .
اس معاملے پر تاحال سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ اور فنانس والے خاموش ہیں ، شائد یہاں پر بھی "قائد اعظم کا زور "ہو لیکن شکر ہے کہ اس معاملے کو صوبائی اسمبلی میں اٹھایا گیا
اور اب کہاجارہاہے کہ سٹینڈنگ کمیٹی نے ڈی نوٹیفیائڈ جگہوں کے بارے میں ڈائریکٹریٹ کے متعلقہ افسران کو طلب کیا ہے اب وہاں پر کیا ہوگا ، یہ تو آنیوالاوقت ہی بتائے گا شائدکچھ ہوبھی جائے .
لیکن اگر میرہ کچوڑی کی جگہ ڈی نوٹیفائیڈنہ ہوتی تو شائد آج وزیراعلی خیبرپختونخواہ کے خواہش پر بننے والے ہارس رائیڈنگ کلب کیلئے جگہ موجود ہوتی ،
ویسے اگر ڈیپارٹمنٹ میں آنیوالے افراد کے اثاثے اور بینک بیلنس چیک کئے جائیں تولگ پتہ جائے کہ کہ دو دودنی چار کے بجائے کچھ لوگوں نے دو دونی بائیس کس طرح کیا ہے.لیکن یہ کرے گا کون یہ بہت سوالیہ نشان ہے.