مضامین

کرسٹی کووینٹری اور اولمپک سفارت کاری کا نیا دور۔۔۔

تحریر: شاہد الحق

کرسٹی کووینٹری اور اولمپک سفارت کاری کا نیا دور۔۔۔

تحریر: شاہد الحق — اسپورٹس فلاحی کارکن، تجزیہ نگار اور میزبان SPOFIT یوٹیوب چینل

بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (IOC) آج اس مقام پر کھڑی ہے جہاں کھیل، سیاست، صحت، اور عالمی سفارت کاری ایک دوسرے سے گہری طرح جُڑ گئے ہیں۔

اور اس تمام پیچیدہ منظرنامے کے مرکز میں موجود ہیں نئی صدر کرسٹی کووینٹری — جو کبھی اولمپک چیمپئن تھیں اور اب عالمی کھیلوں کی قیادت کے سب سے مشکل امتحان سے گزر رہی ہیں۔

کووینٹری کا حالیہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کرنا ایک علامتی تقریب نہیں بلکہ ایک واضح پیغام تھا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ "کھیل بیماریوں کی روک تھام اور ذہنی صحت کے فروغ کے لیے دنیا کے سب سے مؤثر، کم خرچ اور زیادہ اثر رکھنے والے ذرائع میں سے ایک ہیں۔”

یہ محض ایک بیان نہیں بلکہ ایک نئی سوچ کی عکاسی تھی — کہ کھیل اب صرف میدانوں تک محدود نہیں رہے بلکہ انسانی صحت اور معاشرتی بہبود کا حصہ بن چکے ہیں۔

تاہم، اس قیادت کا سفر آسان نہیں۔ روس کی شمولیت سے متعلق تنازعہ اب بھی IOC کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔
کووینٹری نے غیر معمولی وضاحت کے ساتھ اعلان کیا کہ جس پالیسی پر پیرس 2024 میں عمل کیا گیا تھا، وہی اصول ملانو کورٹینا 2026 میں بھی لاگو ہوں گے۔

یہ موقف بعض حلقوں کو ناگوار ضرور گزرا، مگر اس نے ایک بات واضح کر دی — کہ اولمپک تحریک کسی ریاستی سیاست کی غلام نہیں۔

دوسری جانب، ان کا میلان کا حالیہ دورہ بھی سفارتی اعتبار سے زیرِ بحث رہا۔ مقامی میڈیا کے مطابق ان کے وفد کو خوش آمدید کہنے کے لیے کوئی اٹالین حکومتی نمائندہ موجود نہ تھا، جسے بعض حلقوں نے ’’سفارتی سردمہری‘‘ قرار دیا۔

مگر کووینٹری نے خاموشی اختیار کی — ایک ایسا رویہ جو غیر ضروری تنازعات سے بچنے اور معاملے کو وقار کے ساتھ حل کرنے کی مثال بن گیا۔

چند ہی دن بعد، اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے موقع پر ان کی ملاقات اٹلی کی وزیراعظم جورجیا میلونی سے ہوئی۔ دونوں خواتین رہنماؤں کے درمیان خوشگوار گفتگو کی تصاویر نے تمام افواہوں کو خاموش کر دیا اور واضح کیا کہ کھیلوں کی عالمی قیادت اب جذباتی سمجھ بوجھ اور تحمل پر بھی مبنی ہے۔

کووینٹری کا انداز ایک نئی قسم کی اولمپک سفارت کاری کی نمائندگی کرتا ہے — جس میں شور شرابے کے بجائے بات چیت، احترام اور تسلسل کو ترجیح دی جاتی ہے۔ وہ محاذ آرائی نہیں چاہتیں بلکہ شراکت داری اور مکالمے کو فروغ دیتی ہیں۔
یہی رویہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کی قیادت کا دور توازن، شمولیت، اور وسیع تر انسانی مقصد پر مبنی ہوگا۔

ایک ایسے شخص کے طور پر جو برسوں سے کھیلوں کی ترقی، فٹنس پروگرامز، اور بین الاقوامی ایونٹس کے انتظام سے وابستہ ہے، میں کووینٹری کے رویے کو خوش آئند سمجھتا ہوں۔
انہوں نے کھیل کو صرف تمغوں کا کھیل نہیں بلکہ صحت، امن، اور سماجی ہم آہنگی کا ذریعہ قرار دے کر اولمپک فلسفے کو ازسرنو زندہ کیا ہے۔

تاہم، چیلنجز اب بھی باقی ہیں۔ ملانو کورٹینا 2026 کے انعقاد میں چند ہی ماہ باقی ہیں، اور کووینٹری کو بیک وقت انتظامی تقاضوں اور اخلاقی ذمہ داریوں کا توازن قائم رکھنا ہے۔ دنیا کی نظریں ان پر ہیں کہ وہ اس آزمائش میں کیسے کامیاب ہوتی ہیں۔

اگر وہ اس راستے پر ثابت قدم رہیں تو ممکن ہے کہ کرسٹی کووینٹری IOC کی صدارت کے تصور کو ایک نئی پہچان دے دیں — ایسی قیادت جو صرف اختیارات نہیں بلکہ امن، صحت اور انسانیت کی وحدت کی نمائندہ ہو۔

مصنف کے بارے میں: شاہد الحق ایک معروف اسپورٹس فلاحی کارکن، بین الاقوامی اسپورٹس تجزیہ نگار اور SPOFIT یوٹیوب چینل کے میزبان ہیں۔ وہ مختلف قومی ٹیموں کے فٹنس کوچ، بین الاقوامی ایونٹس کے کوآرڈینیٹر اور پاکستان پاور لفٹنگ فیڈریشن کے ڈویلپمنٹ ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ ای میل: spofit@gmail.com | واٹس ایپ: +92 333 5161425

 

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!