
شکستوں کے سائے میں پاکستان کرکٹ — راولپنڈی ٹیسٹ نے حقیقت عیاں کر دی،
شکست پر شکست، مگر واہ واہ برقرار! پی سی بی کی پالیسی پر سوالیہ نشان
تحریر ; غنی الرحمن
کبھی پاکستان کرکٹ ٹیم اپنی غیر متوقع اور جاندار کارکردگی کی وجہ سے دنیا بھر میں پہچانی جاتی تھی۔ وہ ٹیم جو مشکل سے مشکل حالات میں بھی فتح کا راستہ نکال لیتی تھی، آج مایوسی،
بدانتظامی اور ناتجربہ کاری کی علامت بن چکی ہے۔ راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں ساؤتھ افریقہ کے خلاف حالیہ ٹیسٹ میچ میں جو کچھ ہوا، وہ محض ایک شکست نہیں بلکہ پاکستانی کرکٹ کے زوال کی داستان کا ایک اور باب ہے۔
راولپنڈی ٹیسٹ میچ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ بیٹنگ لائن مکمل طور پر ناکام رہی، کوئی بھی بلے باز ذمہ دارانہ اننگز نہ کھیل سکا۔
وکٹ پر ٹھہرنے کی صلاحیت اور دباؤ میں کھیلنے کا جذبہ دونوں کا فقدان واضح نظر آیا۔ گیند بازوں کی کارکردگی بھی کچھ بہتر نہ تھی، لائن اور لینتھ کا فقدان، پلاننگ کی کمی اور ساؤتھ افریقی بلے بازوں کے خلاف غیر مؤثر حکمت عملی نے میدان میں ٹیم کی کمزوری کو عیاں کر دیا۔
یہ صرف راولپنڈی اسٹیڈیم کی بات نہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں جہاں جہاں پاکستانی ٹیم نے ساؤتھ افریقہ کے خلاف کھیل پیش کیا ہے،
تقریباً ہر سیریز میں وہی پرانی غلطیاں دہرائی گئی ہیں۔ کبھی بیٹنگ فلاپ، کبھی فیلڈنگ میں بدترین کارکردگی، اور کبھی کپتانی میں کمزور فیصلے گویا کوئی پہلو ایسا نہیں جس میں بہتری نظر آئے،
افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے حکام اس صورتحال سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ ٹیم کی شکستوں پر سنجیدہ جائزہ لینے کے بجائے، وہ میڈیا میں مصنوعی واہ واہ کے ذریعے ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے شکست اب معمول بن چکی ہے، اور اس کے باوجود بیانات میں "بہتری کی امید، یا مثبت پوائنٹس تلاش کرنے کی عادت پی سی بی کے رویے کا حصہ بن گئی ہے۔ قومی ٹیم کی ناکامیوں کو سنوارنے کے بجائے، ان پر پردہ ڈالنے کی روش نے پاکستان کرکٹ کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔
پاکستان کرکٹ اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں صرف کھلاڑیوں کو نہیں، بلکہ نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب تک میرٹ پر سلیکشن، جدید کوچنگ، اور حقیقی احتساب کا نظام قائم نہیں ہوتا، راولپنڈی ہو یا کسی اور میدان کا ٹیسٹ ، نتیجہ وہی رہے گا،
کرکٹ صرف کھیل نہیں بلکہ قومی وقار کا معاملہ ہے اور جب وقار کو ترجیح نہ دی جائے تو نتائج وہی ہوتے ہیں جو آج پاکستانی ٹیم بھگت رہی ہے۔



